
تحریر: محمد آصف خان
خیبر پختونخوا میں حالیہ میٹرک امتحانات 2025 کے دوران نقل کی روک تھام کے لیے انٹیلیجنس بیورو اور اسپیشل برانچ کے اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ کمشنر آفس سے جاری کردہ بیان کے مطابق صوبائی حکومت اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا جناب شہاب علی شاہ کی خصوصی ہدایات پر میٹرک امتحانات میں شفافیت کو یقینی بنانے اور نقل کی روک تھام کے لیے مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ اس مقصد کے لیے امتحانی ہالوں کے باہر سادہ کپڑوں میں انٹیلیجنس بیورو اور اسپیشل برانچ کے اہلکار تعینات کیے جائیں گے جو نقل سے متعلق مشکوک سرگرمیوں کی فوری رپورٹنگ کریں گے۔محکمہ تعلیم ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن خیبرپختونخوا کے حکام کے ساتھ ساتھ، ضلعی انتظامیہ مرد اسسٹنٹ کمشنرز لڑکوں کے امتحانی ہالز جبکہ خواتین اسسٹنٹ کمشنرز لڑکیوں کے امتحانی مراکز کے اچانک دورے کریں گے۔ نقل کی روک تھام کے لیے مشکوک امتحانی مراکز کے خلاف خصوصی حکمت عملی طے کر لی گئی ہے جبکہ نقل میں معاونت کرنے والے عملے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔ طلبہ کے لیے امتحانی ہالز میں پر سکون ماحول فراہم کرنے کے لیے اسسٹنٹ کمشنرز اور دیگر حکام کے دوروں کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کے امتحانی ہالز میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ بہت اچھے اقدامات ہیں جو اعلیٰ حکومتی سطح سے اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس سے نقل روکنے میں اور ہر قسم کی مشکوک کارروائیوں پر نظر رکھی جائے گی اور نقل جیسے ناسور کا خاتمہ ہو گا یا اس میں کمی آئے گی۔ سب جانتے ہیں کہ نقل ایک برائی ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ اس برائی کا جڑ سے خاتمہ ہونا چاہیئے۔ حالیہ اقدامات اٹھانے سے نقل کی روک تھام میں یقیناً معاونت ملے گی۔ نقل مافیا اور چند بزنس مین اس کی بڑھوتری میں کوشاں رہتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ ضروری ہے ان کلپرٹس کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی ہونی چاہیئے۔ نقل کی حوصلہ شکنی سے بچے، اساتذہ اور والدین محنت کرنے پر مجبور ہوں گے لا محالہ تعلیم کے مقاصد کماحقہ حاصل ہوں گے۔ مگر، کاش کہ کبھی اعلیٰ سطح پر سٹیک ہولڈرز یہ بھی سوچیں کہ بچے نقل کرتے کیوں ہیں؟ نقل کی بہت ساری وجوہات ہیں علیحدہ اور مفصل بحث ہے۔ بہر حال، ان وجوہات میں ایک بہت اہم وجہ ہے۔ جس پر نہ صرف غور کرنا بلکہ سدباب کے بغیر نقل جیسے ناسور کا خاتمہ ممکن ہی نہیں! لگتا ہے کہ اس برائی پر سب سٹیک ہولڈرز نے عمداً آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ وہ ہے سکولوں میں اساتذہ کی خالی نشستیں! کیا خالی آسامی بھی بچوں کو تدریس و تعلم اور تربیت کر سکتی ہے؟ جواب ہے بالکل نہیں جیسے مستری اور مزدوروں کے بغیر تعمیرات نہیں ہو سکتیں اسی طرح استاد کے بغیر تعلیم و تعلم نہیں ہو سکتا۔ سب سٹیک ہولڈرز کے علم میں ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں سے سکولوں میں ہزاروں اساتذہ کی پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔غریب بچے بغیر اساتذہ کے اور بلا پڑھنے لکھنے کے پروموٹ ہوتے چلے جا رہے ہیں اور وہ میٹرک تک پہنچ جاتے ہیں! ارباب اختیار اس پر بھی کبھی عمل کریں کہ بچے کا ایک دن بھی استاد کے بغیر نہ گزرے جیسے پرائیویٹ سیکٹر کے سکولز میں ہوتا ہے کہ ادھر ایک استاد فارغ ہوتا ہے ادھر دوسرے نئے مدرس کو کلاس تفویض کر دی جاتی ہے۔ پبلک سیکٹر میں پروموشن کے فرسودہ نظام اور تقرری میں ریڈٹیپ ازم نے بچوں کو استاد جیسی بنیادی سہولت سے محروم کر رکھا ہے۔ جس سے بچوں کا ناقابل تلافی تعلیمی نقصان ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر بچوں کو استاد جیسی بنیادی سہولت بر وقت میسر ہو تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نوے فیصد نقل از خود کنٹرول ہو جائے گی۔ سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے بچے مجبوراََ نقل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان بیچاروں نے بغیر استاد کے کئی برس گزارے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب جو چند اساتذہ سکولز میں موجود ہیں اور بچوں کو پڑھا رہے ہیں یا بچوں کو چپ کروا رہے ہوتے ہیں کہ اکثر متعلقہ مضمون کے استاد نہیں ہوتے یا اپنے کام کے ساتھ ساتھ اضافی بوجھ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ چند اساتذہ بیچارے پورا سال بچوں کو چپ کروانے اور کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ بیچارے اپنا تعلیمی دن شور شرابہ میں گزارتے ہیں۔ اکثر ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سال کے اختتام پر حکام سب کچھ جانتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر کے خراب نتائج پر محکمانہ تادیبی کارروائی ان بیچاروں کے خلاف کر گزرتے ہیں۔ کچھ کو دور دراز تبدیل کیا جاتا ہے، کچھ کی سالانہ انکریمنٹ کاٹ دی جاتی ہیں اور بعض کو شو کاز نوٹس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں! اصولاً ان خراب نتائج کی سزا سکول میں چند “بچے کھچے” اساتذہ کو دینے کے بجائے ان سٹیک ہولڈرز کو ملنی چاہیئے جو سالوں سے بجٹ بچانے کے چکر میں بیچارے بچوں کو استاد جیسی بنیادی سہولت سے محروم رکھے ہوئے ہیں! بچے اور والدین غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے بچوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا پھر بھی وہ اپنے بچوں کو سرٹیفیکیٹ دلانے کے لیے نقل کروانے میں کوشاں ہوتے ہیں کہ ان کے پیاروں کو کاغذ کا ٹکڑا (سرٹیفکیٹ) مل جائے کہ وہ کوئی معمولی ملازمت حاصل کر سکیں! آمدم بر سر مطلب، کچھ حکومتی اور ریاستی ارباب اختیار کو اپنی اداؤں پر بھی غور کرنا چاہیئے۔ اساتذہ کی تقرریوں اور پروموشن پالیسیوں کو صرف اور صرف بچے کی بہتری کے لیے از سر نو ترتیب دینا ہو گا تب ہی نقل جیسے ناسور کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ وما علینا الاالبلاغ