
میٹرک 2025 کے امتحان میں نقل کی بیخ کنی کیلئے چیف سیکریٹری سطح پر پہلی بار جو عملی اقدامات آٹھائے گئے ھیں۔ یہ ایک بہت سنجیدہ کوشش ھے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ھے اور تمام سٹیک ھولڈرز کو ان پر عملدرامد اور کامیاب بنانے میں بھرپور تعاون کو یقینی بنانا ھر بندے کی فرض اولین ھونی چاھئے. لیکن چیف سیکریٹری لیول کے فیصلوں کو بعض تعلیمی بورڈز کے دائرہ کار میں واقع اضلاع میں ضلعی انتظامیہ اس فیصلے کو ایک غلط اندازمیں لیا گیا ھے۔
1۔ بعض اضلاع کے ضلعی انتظامیہ کے افسران بالا کے اعلی سطحی اجلاس مین یہ عجیب و غریب فیصلہ بھی منظرعام پر آیاھے کہ متحانات کے دوران طلبہ سے نقل کی برآمدگی کی صورت میں متعلقہ تعلیمی ادارے کے پرنسپل کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس سلسلے میں عرض ھے کہ نقل کے مواد اگر متعلقہ سکول کا پرنسپل یا اسکے زیر اثر کوئی بھی فرد یا افراد فراھم کررھاھو توبلا شبہہ وہ نقل کی حوصلہ افزائی کے جرم میں ملوٹ تصور ھوگا اس کے خلاف کاروائی جائزتصور ھوگی۔ وہ سکول سربراہ خواہ سرکاری اداروں کا ھو یا نجی تعلیمی اداروں سے ان کا تعلق ھو کم از کم نقل کی حوصلہ افزائی جیسے بڑے سے بڑے جرم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ھوناچاھئے۔ لیکن جہاں سرکاری یا نجی سکول سربراہ خودموقع پر موجود نہ ھو یا کسی سرکاری ڈیوٹی پر ھو یا کسی صورت نقل کی حوصلہ افزائی میں بالواسطہ اور بالواسطہ ملوث نہ ھو تو اس کے خلاف کاروائی کسی صورت قرین انصاف نہیں ھوگی۔ کیونکہ اگر سکول سربراہ سکول میں امتحان کے موقع پر موجود بھی ھو لیکن امتحان میں سرکاری سطح پر اس کا عمل دخل ھی نہ ھو اور نہ وہ امتحای عمل کا حصہ ھو اور نہ وہ امیدواروں کی جیب میں پائے جانے والے نقل کے مواد میں ملوث ھو تو اخر کس قانون یا بورڈ کیلنڈر کے کس شق کے تحت وہ ذمہ دار ھوگا اور اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ اس کے پاس تو صرف ریزیڈنٹ انسپیکڑ کی چھوٹی سی ذمہ داری ھوتی ھے کہ پیکٹ کھولتے وقت لفافے پر دستخط کردیں تاکہ یہ ثابت ھو کہ پیپر پیکٹ سربمہر ھے اور اس کے سامنے کھولا گیا ھے اس کے بعد رضاکارانہ طور پر وہ امتحانی ھال کے باھر پبلک کو روک کر ماحول کو پرامن بنانے کی سرٹوڑ کوشش کرتاھے اور امتحانی ھال کے اندر اس کو جانے کی اجازت ھی نہیں ھوتی تو اس کے خلاف کاروائی کا قانونی یا اخلاقی جواز کیابنتا ھے۔ یادرھے کہ نقل کے مواد پکڑنے کا براہ راست تعلق امتحانی عملے سے ھے کیونکہ پورڈ کیلنڈر کے مطابق ان کی تعیناتی کا بنیادی مقصد نقل کے خاتمے میں اپنی فرائض منصبی کو بروئے کار لانا ھے اور اس میں غفلت یا تساہل پر ان کے خلاف کاروائی ھوگی نہ کہ سکول سربراھان کے خلاف۔۔۔
2۔ پرائویٹ سکولز کے امیدواروں کو سرکاری سکولز میں امتحان دینے کیلئے ایسے وقت پر پابند بنانے کے فیصلہ پر عملدرامد سے تعلیمی بورڈز ھی کو مشکلات کا سامنا کرنا ھوگا کیونکہ امیدواروں کو ان کے رول نمبرز اور سنٹرز الاٹ کرکے پورٹل پر بھی دئے جاچکے ھیں اور امتحان میں چند ھی دن باقی ھیں ان میں بھی عیدکی تعطیلات ائیں گی۔ اور بعض اداروں نے توپورٹل سے اپنے رول نمبر ڈاون کوڈ بھی کردئے ھیں۔۔لہذا اگر یہ اچھا فیصلہ بھی ھے تو اس کی ٹائمنگ مناسب نہیں۔ ائندہ امتحان کیلئے سب سٹیک ھولڈرز کو اعتماد میں لیکر اسی فیصلے کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ لاگو کروانے میں ھی خیر ھوگا ان شاء اللہ
مزید برآں پرائیویٹ سیکٹر ھمارے تعلیمی نظام کا 40 فیصد حصہ cover کرھا ھےاوروہ ایک مضبوط سٹیک ھولڈر ھے بورڈزکوریوینیو کا ایک بہت بڑا فنڈنگ سورس بھی ھے لہذا ان کو اگر اعتماد میں لیا جائے تو فیصلے کے اچھے پہلو بھی سامنے آسکتے ھیں۔ اور جہاں متفقہ طور پر کسی فیصلے کی صورت سامنے آجائے تو نتائج بھی اچھے آنے کی توقع ھوتی ھے۔ مثلا” سرکاری اور نجی امتحانی ھالز کی میوچول شئرنگ پر غور کیا جاسکتاھے ۔ ان تمام نجی سکولز جہاں ھالز موجود ھیں ان کو میوچول شئرنگ فارمولے کے تحت استعمال میں لایا جائے بجائے اس کے کہ ان کو یکسرمستردکرکے عدم اعتمادکےفضا کیلئے راہ ھموارکیا جائے البتہ وہ نجی سکولز جہاں پر ھالزکی سہولت میسر نہیں ان کو قریب تریں سرکاری سکولز کے امتحانی ھالز میں جگہ دی جائے۔ مختلف چھوٹے چھوٹے نجی سکولز اکھٹے ھوکر بھاری فیس بورڈ میں جمع کرواکر متحانی ھالزکی تخلیق پرپابندی لگادی جائے۔ جب تک کسی نجی سکول کے اندر اپنا ھال اور اپنے سکول کے ریگولر امیدواروں کامطلوبہ تعداد برابر نہ ھو۔
3۔ سردست بورڈز کو یہ مسئلہ بھی فوری طور پر درپیش ھوگا کہ جہاں جہاں پرائویٹ سکولز کے اندر ھالزکو بھاری سرکاری فیس کے عوض الاٹ کئے گئے ھیں کیا بورڈز وہ فیس واپس ریفنڈ کریں گے؟
4۔ امتحانی ہال میں سپرنٹنڈنٹ کے علاوہ دیگر امتحانی عملے کو موبائل رکھنے کی ہر گزاجازت نہیں ہونی۔طلبہ کو بھی امتحانی ھالز میں موبائل سمیت کوئی بھی ڈیجیٹل آلات رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاھئے۔
5۔ نقل مافیا ھمارے جڑوں کو عرصہ دراز سے کاٹ رھی ھے لیکں نقل مافیا کے جڑون کو کاٹنے میں آج تک ھم بحیثیت قوم تمام تر وسائل کے باوجود کیوں ناکام ھیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ھے جس کا آغاز یقینا چیف سیکریٹری سطح پر کوششوں سے کیا جاچکا ھے تاھم نقل کی جڑوں کو ختم کیا جا سکتاھے اگر سکولزمیں ایجوکیشن کوڈز پرعملدر آمد کو یقینی بناکر سکولز سربراھاں کو با اختیار بنایا جائے۔ غیر حاضری پر سکول انتظامیہ قانون کے مطابق ایکشن لینے کیلئے بااختیار بنادیا جائے۔ کمزرو بچوں کیلئے zero failure کی پالیسی سے u-turn لینا ھو گا. پری بورڈ کے امتحان میں detention پالیسی پر محدود حد تک لاگو کرنا ھو گا۔ بورڈ کیلنڈر کے مطابق 75 فیصد سے کم حاضری والے طلبہ کوامتحان کی اجازت دینے کی پالیسی سے واپسی کرنی ھوگی۔ انٹرنل امتحان کے اندر تمام مضامیں میں پاس کرنے کے قانون کو لاگو کرنا ھوگا۔ ان تمام اقدامات سے طلبہ خی تعلیمی استعداد میں اضافہ ھوگا اور نقل میں بتدریج کمی نقل کے مکمل خاتمے پر منتحج ھوگی ان شاء اللہ
6۔ انٹیلجینس اداروں ، پولیس، اور بیوروکریسی افیسرزکے ھمراہ ان کے سیکیورٹی گارڈز کے امتحانی ھالز کے اندر موجودگی معصوم طلبہ پر نفسیاتی دباو کا سب سے بڑا سبب بنے گا۔ اور اتنے سارے وزیٹنگ افیسرز، انسپیکٹرز، انسپیکشن ٹیمز کا ھال میں امد اور ھدایات دینے سے بچوں کا جو وقت اور خاص طور پر دھیان اور توجہ میں تسلسل کا بار بار ٹوٹنے کا ازالہ کیسے ممکن ھوگا؟ کیا بورڈزکے واکداران نے اس طرف بھی کوئی ھوم ورک کیا ھے؟کیونکہ بورڈ انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ھے کہ امیدواروں کو کیسے facilitateکیا جائے۔ ان کے تین گھنٹوں کے دورانیہ کے ایک ایک سیکنڈ کا کیسے تحفظ کیا جائے؟
کیا بورڈ انتظامیہ نے بیک وقت ایک سے زیادہ انسپیکشن ٹیمز اور انسپیکٹرز کی امتحانی ھالز میں داخلے پر پابندی کیلئے بھی کوئی ToRs متعین کی ھیں؟
کیا ھالزمیں تعینات سپروائزری سٹاف کیلئے کوئی کونسلنگ ورکشاپ کی گئی ھے یا کروانے کا پروگرام ھے کہ وہ ھال میں بلا وجہ اپنی غیر ضروری چیخ وپکار سے امتحان کے پر امن اور پر سکون ماحول کو خراب نہ کریں؟
کیا افسران بالا کے ھمراہ جدید اسلحے سے لیس سیکیورٹی گارڈز کو امتحانی ھالز سے دور رکھنے کیلئے کوئی میکینزم بنایاگیاھے؟ کیا ھالز کے اندر افسران بالا کو ان کے وزٹ کے دوران اپنے موبائل کو استعمال کی ممانعت ھوگی؟ اور اگر وہ ھالز کے اندر اپنا موبائل استعمال کریں تو اس خلاف ورزی پر ان سے پوچھا جاسکےگا؟
7۔ سپروائزری سٹاف کی جانب سے موبائل کے استعمال پر پابندی بلا شبہہ خوش آئند ھے لیکن بورڈ انتظامیہ یا ان کی نمائندگی کرنے والے بورڈ عملہ کو بھی اس طرح کے ToR کا پابند بنایا گیاھے؟ کہ وہ بھی امتحانی ھالز میں وزٹ کے دوران اپنے موبائل کو بند رکھیں؟
8۔ماضی قریب میں وقت سے پہلے پیپر لیک یا آوٹ ھونے کی سب سے بڑی وجوھات میں سے ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ھے کہ امتحانی پیپر کو امیدواروں کے ھاتھوں میں پورے 9 بجے تھمادینا لازمی ھے لیکن صرف اس خوف یا خدشے کے پیش نظر گذشتہ دو تین سالوں سے یہ روایت شروع کردی گئی ھے کہ پیپر کو بینک سے پورے 9 بجے دینے کا عمل شروع ھوگیاھے اس کا نتیجہ یہ نکلتا رھا کہ بینک کے قریب ترین امتحانی ھال میں پیپر 20 منٹ تک یعنی 9 بجکر 20 منٹ تک پیپر کھول دیا جاتا جبکہ بینک سے دور امتحانی ھالز میں 9.20 تک پیپر ابھی پہنچ بھی نہیں پاتا ۔ ایسی صورتحال میں جن امتحانی ھالز میں پیپرز 9.20 پر کھولے گئے ھیں وھاں سے پیپر لیکیج کا رسک ضرور موجود رھتا ھے۔ لہذا اگر امتحانی پرچے کا سرکاری ٹائم 9 بجے ھے تو اس کا مطلب یہ ھونا چاھئے کہ پورے 9 بجے پیپر امیدواروں کے ھاتھ میں ھونا چاھئے جیسا کہ ھمیشہ سے ھوتا چلا ارھا ھے۔۔ بینک سے 9 بجے پرچوں کے پیکٹس کے اجراء کےپیچھے اگر یہ logic ھے کہ خدانخواستہ خدانخواستہ پیپر اگر 9 بجے کے بعد اوٹ ھوجائے تو اس کی ذمہ داری امتحانی ھال کے سپرینٹنڈنٹ پر آجائے اور بورڈ کی کارکردگی پر کوئی انگلی نہ آٹھائیں۔ تو یہ بات نوٹ کی جائےکہ بورڈ کیلنڈر کے مطابق امٹحان کا عملہ اس وقت سے درحقیقت بورڈ کے انتظامیہ کا حصہ بن جاتاھے جب سے اس کو امتحانی ھال کا سٹیشنری اور کنفیڈنشل لسٹ اور دیگر ضروری دستاویزات حوالے کیا جاتاھے۔ سپرینٹنڈنٹ کی غلطی درحقیقت کنٹرولزامتحانات کی ھی غلطی تصور ھوگی کیونکہ سپرینٹنڈنٹ کنٹرولر کی behalf پر امتحان لے رھا ھوتا ھے۔ لہذا اس پریکٹس کو فوری طور پر اگر بند کرواکر وھی پرانا طریقہ کار بحال کیا جائے جس میں پورے 9 بجے پیپر امیدواروں کے ھاتھ میں ھو تو اس سے تعلیمی بورڈ کے وقار میں بھی اضافی ھوگا اور امتحانی ھالز سے پیپر لیک ھونے کے خدشات بھی کاگی حد تک کم سے کم بلکہ نہ ھونے کے برابر ھوجائیں گے۔
آخری گذارش
نقل کے خاتمے کیلئے عمارت پر توجہ دینے کی بجائے اگر امتحانی عملے کی میرٹ تعیناتی پر توجہ دی جائے تو یقینا” کآمیابی طرف سفر کا آغازھوگا اور بتدریج چند سالوں میں نقل کا یکسر خاتمہ ممکن ھوگا۔ ان شاء اللہ
ویلڈن چیف سیکریٹری صاحب ویلڈن سیکڑیٹری اہجوکیشن سکول آفیسرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا نقل جیسی لعنت کے خاتمے میں پورا تعاون کررتے ھوئے نقل مافیا کے خلاف اپ کے شانہ بشانہ ھوگا۔ امتحانات کے عمل کو شفاف بنانا بورڈز کی آولیں ذمہ داری ھے اور اس آھم ترین ذمہ داری کو نبھانے کیلئے بورڈزچیرمین صاحبان اور کنٹرولرزصاحبان کو تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھنا ھوگا اور نقل پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم نو اور تجدید عہد کرنا ھوگا۔تب یہ قومی مسئلہ حل کی طرف بڑھے گا۔
وما علینا الاالبلاغ ۔۔۔
از۔ حافظ زبیر احمد
ترجمان سکول آفیسرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا
سیکریٹری تھنک ٹینک محکمہ تعلیم
چیرمین ایجوکیشن کونسل مردان