
تحریروتحقیق ۔ حافظ سرفرازخان ترین
شاہراہ ہزارہ پرسفر کرتے ہوئے آپ ہری پور شہر کی حدود میں داخل ہوں توبرلب سڑک برطانوی عہد کی ایک پرشکوہ عمارت پر نظر پڑتی ہے جس میں اساتذہ کاتربیتی ادارہ آرپی ڈی سی المعروف ایلیمنٹری کالج ہریپور قائم ہے جوتقریباًپون صدی سے ہزارہ بھر کے اساتذہ کے واحد تربیتی ادارے کے طورپر کام کررہاہے علامہ اقبال یونیورسٹی کے فاصلاتی نظام تعلیم سے قبل شعبہ تدریس سے وابستگی کے خواہشمند نوجوان باقاعدہ میرٹ پر داخلہ لے کرپی ٹی سی،سی ٹی اور ڈی ایم کے کورسزکرکے اپنانمبر آنے پرمحکمہ تعلیم میں ٹیچربھرتی ہواکرتے تھے۔
قیام پاکستان سے قبل ہری پور میں شہر میں تین ہائی سکول تھے لکشمی چند خالصہ ہائی سکول، گورنمنٹ ہائی اسکول، جسے اسلامیہ ہائی اسکول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اب گورنمنٹ سینیٹینیل ماڈل ہائیر سیکنڈری اسکول نمبر 1 کے نام سے جانا جاتا ہے اور سناتن دھرم ہائی اسکول جس کا اب نام تبدیل کر کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول نمبر 2 ہری پور کردیا گیا ہے مؤخر الذکر ایک ہندو خاتون مخیر، شریمتی نارائن دیوی نے اپنے آنجہانی شوہر پنڈت ہیرانند کی یاد میں تعمیر کیا تھا اور اس کے ممتاز سابق طلباء میں سابق وفاقی وزیر خزانہ سرتاج عزیز، شاعر قتیل شفائی اور لاہور کے کالج آف کمیونٹی میڈیسن کے سابق پرنسپل اور متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ایم اے صوفی شامل ہیں۔
ممتاز مسلم خاندان اعلیٰ تعلیمی معیار کی وجہ سے اکثر اپنے بچوں کو سکھوں کے تعلیمی اداروں میں بھیجنے کا انتخاب کرتے ہیں۔
لکشمی چند خالصہ ہائی سکول کاقیام اوروجہ تسمیہ
خالصہ راج کے خاتمے کے بعد، سکھوں کی ایک بڑی آبادی ہری پور میں رہی اور سکھ بچوں کے لیے الگ اسکول سسٹم کی ضرورت محسوس کی۔ ان کے خواب ساڑھے چھ دہائیوں کے بعد شرمندہ تعبیر ہوئے، جب ایک مخیرسکھ لکشمی داس (جسے لکشمی چند بھی کہا جاتا ہے) نے 1913 میں خالصہ ہائی اسکول قائم کیا۔
ایبٹ آباد میں رہنے والے ایک سکھ تاجرلکشمی داس نے ہزارہ میں ریلوے ٹریک بنانے کا ٹھیکہ حاصل کیا اور اس منصوبے سے نہ صرف انہیں بہت زیادہ منافع ہوا بلکہ کافی ذخیرہ بھی فراہم کیا گیا۔ اس منصوبے کے باقیماندہ میٹریل سے نہ صرف اسکول تعمیر کیا بلکہ اس کے بعد کے چلانے کے لیے فرنیچر اور جزوی طور پر مالی امداد بھی کی۔ ان کی خدمات کے صلے میں، انتظامی بورڈ نے ادارے کا نام لکشمی داس خالصہ ہائی اسکول رکھا۔
اسکول سے ٹیچر ٹریننگ تک
سابقہ شمال مغربی سرحدی صوبہ (این ڈبلیو ایف پی) کے چیف کمشنر جے ایس ڈونلڈ نے 6 نومبر 1913 کو اسکول کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر سردار موہن سنگھ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 22 ستمبر 1947 کو اس کا نام نیو گورنمنٹ ہائی سکول رکھ دیا گیا اور مرحوم علامہ ابوالخیر کو اس کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا۔یکم اپریل 1949کواس وقت کے وزیراعلٰی خان عبدالقیوم خان،وزیر تعلیم جعفر شاہ اور خان محمد اسلم خان خٹک ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشنزنے اس کاباقاعدہ افتتاح کیا۔
سربراہان ادارہ
27 مئی 1952 کو اسے ٹیچرز ٹریننگ اسکول کے طور پر اپ گریڈ کیا گیا۔جس کے بعداساتذہ کے تربیتی ادارے کے طورپر مختلف ادوار میں اس کے نام اور حیثیت تبدیل ہوتی رہی۔یکم جولائی 1981کواس ادارے کوگورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فارایلیمنٹری ٹیچرزکادرجہ دے دیاگیاجبکہ یکم اکتوبر2003کو اس ادارے کوریجنل انسٹیوٹ آف ٹیچرز(RITE) اور17مارچ 2021کواس ادارے کوریجنل پروفیشنل ڈویلپمنٹ سنٹر(RPDC)کانام دے دیاگیا۔
27مئی 1952کوٹیچرزٹریننگ اسکول کادرجہ ملنے کے بعد چوہدری خیرمحمد،ملک غلام احمد،محمدفریدون خان،آرخان بہادرخان،گوہررحما ن عباسی،قاضی محمد بشیرالدین،ایس عبداللہ جان،محمد اعظم خان نے یکم جولائی 1981تک مختلف ادوار میں بطور سربراہ ادارہ کام کیا۔
یکم جولائی 1981کواس ادارے کوگورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فارایلیمنٹری ٹیچرزکادرجہ ملنے کے بعد 18جولائی 1981سے 30جنوری 1995تک ایوب خان جدون،قاضی محمد بشیرالدین،محمدخان،غلام سید،جعفرصادق،حاجی شیرافضل خان اور شیخ عمرفاروق اس ادارے کے پرنسپل رہے۔13مارچ 1995کوسربراہ ادارہ کی پوسٹ گریڈ19سے اپ گریڈکرکے گریڈ20کی کردی گئی جس کے بعد محمداقبال ملک، فضل الرحیم اورشیخ عمرفاروق 31اگست 2000ء تک پرنسپل رہے۔
یکم اکتوبر2003کو اس ادارے کوریجنل انسٹیوٹ آف ٹیچرز(RITE) اور17مارچ 2021کواس ادارے کوریجنل پروفیشنل ڈویلپمنٹ سنٹر(RPDC)کانام دیاگیاجس کے بعد شفقت حسین،فضل الرحیم،فضل ربانی،عبدالحکیم،محمد خلاق بیگ،بشارت خان،محمدفاروق،ڈاکٹرطارق محمودخان،عبدالقدوس آزادنے بطور پرنسپل خدمات سرانجام دیں۔8اگست 2024سے تادم تحریر سید امجد علی شاہ آرپی ڈی سی کے پرنسپل کے طور خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
خالصہ ہائی سکول میں تعلیم حاصل کرنے والی نمایاں شخصیات سابق صدر پاکستان فیلڈمارشل محمد ایوب خان،سابق ایئرمارشل شمیم انور،سابق چیف جسٹس سردارفخرعالم سمیت کئی اہم مسلم اور سکھ شخصیات نے خالصہ ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی۔
خالصہ ہائی سکول کی عمارت
خالصہ ہائی سکول کی عمارت جسے اب ایلیمنٹری کالج کے نام سے جانا جاتا ہے شہر میں جی ٹی روڈ کے کنارے ڈسٹرکٹ سیکرٹریٹ کے باالمقابل ایک نمایاں مقام پر واقع ہے۔ اسکول کا اکیڈمک بلاک 9.14 کنال4,624 مربع میٹراراضی پر محیط ہے اور اس میں دو کھلنے والے برآمدے ہیں۔ تین بڑی محرابیں دو چھوٹی محرابوں کی مدد سے مرکزی دروازے سے داخل ہونے والے مہمانوں کا خیرمقدم کرتی ہیں۔ افتتاحی برآمدے کے اندر تین کمرے دفاتر کے طور پر کام کرتے ہیں۔دفاتر کی راہداری سے باہر نکلیں تو پچھواڑے کا برآمدہ، کم از کم 18 محرابوں کے ساتھ، گھاس سے بھرے صحن میں کھلتا ہے اور اس میں پانچ کلاس روم اور ایک بڑا ہال ہے، جو کبھی گوردوارے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔
اس عمارت کابرآمدہ ایک عام برطانوی نوآبادیاتی ڈھانچے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اکیڈمک بلاک کی چھت پر ہیڈ ماسٹر کی رہائش کے لیے دو کمرے ہیں، لیکن اب یہ آرٹ گیلری کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اکیڈمک بلاک کی چھت پر لگائے گئے پرنالے کھلے منہ کے ساتھ شیر کے سر کی شکل میں ہیں۔
ملحقہ شبلی ہاسٹل کی عمارت، 4.8 کنال 2,428 مربع میٹراراضی پر ہے جس میں 10 کمرے اور دو ہال ہیں۔ دروازے اور کھڑکیوں کے وینٹی لیٹرز انگریز دور کی مخصوص محرابوں اور cusped محرابوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہاسٹل کی عمارت میں دو داخلی دروازے ہیں جو مغربی جانب کھلتے ہیں۔ ایک لکڑی کا ہے، جب کہ دوسرا، جو کھیل کے میدان کی طرف مشرقی جانب کھلتا ہے، لوہے کا بنا ہوا ہے۔
ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کے چیئرمین ڈاکٹر شاکر اللہ خان کہتے ہیں، ”چھتوں کی اونچائی اور دیواروں کی موٹائی، لکڑی کے ساتھ شیشے کے وینٹی لیٹرز، کھڑکیاں اور چوڑے دروازے دن بھر سورج کی روشنی اور ہوا کو مسدود کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔“.
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمارت کے انجینئروں نے موسم کی صورتحال اور موسم سرما اور گرمیوں میں بارش کے انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کی منظوری دی۔ اس لیے اس کے کمرے گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم ہوتے ہیں۔”
یہ عمارت درحقیقت 2005 کے تباہ کن زلزلوں سمیت محفوظ رہی ہے اور اس میں شاید ہی کوئی شگاف پڑا کیونکہ انجینئرز نے جیومیٹری کے اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے اس ڈھانچے کو کھڑا کیا تھا۔
سرسید ہاسٹل
سرسید ہاسٹل، جس میں 200 اساتذہ کی گنجائش کے ساتھ 50 کمرے ہیں، بھی خالصہ اسکول کی ملکیت ہے۔ تاہم، 2003 میں، صوبائی حکومت نے عمارت کو فرنٹیئر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا، جس نے پھر خواتین کا کالج کھولا جسے بعد میں خانپور منتقل کر دیا گیا۔ 2018 میں، صوبائی حکومت نے دوبارہ ہاسٹل کی عمارت کو گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج نمبر 2 قرار دیا۔
دونوں ہاسٹل کے سامنے 14.1 کنال رقبہ پر کھیل کا میدان ہے جسے اس وقت کے ہیڈ ماسٹر سردار موہن سنگھ نے 1927 میں ڈسٹرکٹ بورڈ ہزارہ سے 2,775 روپے یا 25 فیصد کی ادائیگی کے عوض خریدا تھا۔
اس وقت اس ادارے میں بی پی ایس 20کے پرنسپل امجد علی شاہ کی سربراہی میں متعدد سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ تعینات ہیں جو کہ ڈائریکٹ انڈکشن پروگرام کے تحت بھرتی ہونے والے اساتذہ کودوران ملازمت پیشہ وارانہ تربیت دیتے ہیں اس کے علاوہ بھی صوبائی محکمہ تعلیم کی طرف سے تفویض کردہ خدمات سرانجام دیتے ہیں یہ ادارہ اس وقت صوبائی ڈائریکٹوریٹ آف پروفیشنل ڈویلپمنٹ کے زیر اہتمام چل رہاہے ۔
خالصہ ہائی سکول ہری پورسے ریجنل پروفیشنل ڈویلپمنٹ سنٹر(آر پی ڈی سی)ہری پورتک کاسفر
مکمل معلومات کے لیے پوری ویڈیودیکھیں اگرپسندآئے تولائک اورشیئرضرورکریں اورکمنٹس سیکشن میں جاکراپنی رائے کااظہارضرورکریں اگرابھی تک ہماراچینل سبسکرائب نہیں کیاتوابھی نیچے دیے گئے لنک پرکلک کرکے سبسکرائب کریں اور بیل کودبادیں۔ان شاءاللہ اس طرح کی مزیدویڈیوزبھی شیئرکی جائیں گی