محکمہ تعلیم کی پالیسی:اساتذہ کی ترقی یابچے کی قربانی

تحریر: محمد آصف خان


تعلیمی بحران: استاد کہاں ہے؟

خیبر پختونخوا کے پرائمری اسکولوں میں طلبہ کی بڑھتی تعداد کے باوجود، ایک اہم سوال یہ ہے: کیا ہر بچے کو استاد میسر ہے؟
بدقسمتی سے، پچھلے پانچ سالوں سے تقرریوں پر پابندی اور 2012 کی ترقیاتی پالیسی نے اس بنیادی حق کو بچوں سے چھین لیا ہے۔

2012 کی ترقیاتی پالیسی: فائدہ یا نقصان؟

اساتذہ کے لیے خوشخبری

2012 میں متعارف کردہ محکمہ تعلیم کی پالیسی کے تحت پرائمری اساتذہ کو گریڈ 12 سے گریڈ 14 اور پھر گریڈ 15 میں ترقی دی گئی۔ اس سے اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہیں مالی و پیشہ ورانہ فائدے حاصل ہوئے۔

طلبہ کے لیے بدخبری

لیکن اس پالیسی کا دوسرا پہلو نہایت تشویشناک ہے۔ جب ایک استاد ترقی پاتا ہے تو وہ پروموشن پوسٹ پر چلا جاتا ہے، اور اس کی پرانی پوسٹ خالی ہو جاتی ہے — جس پر نئی تقرری ممکن نہیں۔

استاد کی کمی کا بنیادی سبب: پروموشن پوسٹیں

محکمہ تعلیم کی موجودہ پالیسی کے مطابق:

  • نئی تقرری صرف گریڈ 12 پر ہو سکتی ہے۔
  • گریڈ 14 اور 15 پر تقرری ممکن نہیں کیونکہ یہ پروموشن پوسٹیں ہیں۔
  • نتیجہ: اسکولوں میں 40٪ سے زائد اساتذہ کی آسامیاں خالی رہتی ہیں۔

ماضی کا ماڈل: سیلیکشن گریڈ اور مواؤور

ماضی میں اساتذہ کو سیلیکشن گریڈ یا مواؤور کے ذریعے ترقی دی جاتی تھی، جس کا فائدہ یہ تھا:

  • استاد اپنی اسی پوسٹ پر تعینات رہتا۔
  • اسکول میں تدریسی عمل متاثر نہیں ہوتا۔
  • بچے کو استاد میسر رہتا۔

حل کیا ہے؟ تعلیمی پالیسی میں “ری تھنکنگ” کی ضرورت

قابلِ عمل تجاویز

  • تمام پرائمری و ایلیمنٹری کیڈر کو ایک ہی بنیادی سکیل میں رکھا جائے۔
  • ترقی پرسنل سکیل، ٹائم سکیل، یا سیلیکشن گریڈ کے ذریعے دی جائے۔
  • استاد اپنی پوسٹ پر برقرار رہے تاکہ بچہ استاد سے محروم نہ ہو۔
  • تعلیمی اہلیت “بی ایس” مقرر کی جائے تاکہ معیاری بھرتیاں ہوں۔
  • ترقیاتی عمل کو بیوروکریسی سے پاک کیا جائے۔

استاد بھی خوش، بچہ بھی خوش

اگر پالیسی ساز ادارے واقعی بچوں کے تعلیمی مفاد کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں، تو انہیں اس ماڈل پر عمل کرنا ہوگا جہاں:

  • استاد کو ترقی بھی ملے
  • سکول میں اس کی موجودگی بھی قائم رہے
  • بچے کا تعلیمی نقصان صفر ہو

نتیجہ: پالیسی بنے بچے کے حق میں

تعلیم کا مقصد صرف اساتذہ کو مراعات دینا نہیں بلکہ بچے کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے۔ لہٰذا محکمہ تعلیم کو آؤٹ آف باکس تھنکنگ کرتے ہوئے ایک ایسی پالیسی وضع کرنی چاہیے جو نہ صرف اساتذہ کو ترقی دے بلکہ بچے کو استاد سے محروم نہ کرے۔


کیا آپ بھی اس تعلیمی بحران سے پریشان ہیں؟

اپنی رائے کمنٹس میں ضرور دیں اور اس پوسٹ کو شیئر کریں تاکہ یہ پیغام پالیسی سازوں تک پہنچے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *