
ضیاء الدین احمدماہر مضمون گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول جب ہری پور
ضیاء الدین احمد سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول جب ہری پور میں بطور ماہر مضمون اسلامیات تعینات تھے۔ باتوں باتوں میں جب معلوم ہوا کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ہندوستان کے شہر سہارنپور سے ہے تو دل میں عقیدت و محبت کا ایک خاص جذبہ جاگا۔ سہارنپور میرے لیے صرف ایک جغرافیائی مقام نہیں بلکہ ایک علمی و روحانی نسبت کا مرکز ہے۔ یہ وہی خطہ ہے جہاں دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم، گنگوہ شریف اور تھانہ بھون جیسے عظیم علمی و روحانی مراکز قائم ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد یہی مراکز اسلامی تشخص کے تحفظ میں پیش پیش رہے۔ میرے کئی اکابر وہیں مدفون ہیں جنہوں نے انگریزوں کے خلاف عملی جدوجہد کا آغاز شاملی کے میدان سے کیا تھا۔ اسی نسبت کی بنا پر دل چاہا کہ کبھی ضیاء الدین احمد سے سہارنپور کی باتیں ہوں تاکہ روحانی تسکین حاصل ہو۔
حال ہی میں خوش قسمتی سے ضیاء الدین احمد کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کا موقع ملا جس میں ان کی خاندانی تاریخ، تعلیمی سفر اور دینی خدمات پر گفتگو ہوئی۔ یہ تمام باتیں قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں گی، اس لیے انہیں تحریری صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ضیاء الدین احمد 14 جنوری 1967 کو حافظ محمد حنیف سہارنپوری کے گھر پرانا خان پور، ضلع ہری پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول خان پور سے حاصل کی۔ میٹرک 1982 میں شاندار نمبروں کے ساتھ پاس کیا اور اپنے سکول میں اول پوزیشن حاصل کی، جس کے باعث ان کا نام آج بھی اسکول کے آنر بورڈ پر درج ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ میٹرک کے نتیجے سے ایک دن قبل ہی ان کے والد ایک ٹریفک حادثے میں وفات پا گئے۔ یہ لمحہ ان کی زندگی کا ایسا المیہ بن گیا جو ہمیشہ یاد رہے گا۔
انہوں نے گورنمنٹ ڈگری کالج خان پور سے ایف اے بھی اعزاز کے ساتھ مکمل کیا لیکن گھریلو ذمہ داریوں کے باعث ریگولر تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ تاہم، تعلیم سے محبت انہیں دوبارہ تعلیمی سفر کی طرف لے آئی اور انہوں نے پرائیویٹ طور پر بی اے، ایم اے اسلامیات، ایم اے عربی اور بی ایڈ کے امتحانات پاس کیے۔ 1997 میں پشاور یونیورسٹی سے سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔
تدریسی سفر اور دینی خدمات
ضیاء الدین احمد دورانِ تعلیم ہی اپنے والد کے دوست مولانا قاضی غلام احمد سے عربی زبان سیکھ چکے تھے، جس کی بنا پر ایف اے کے بعد ہی ان کی بطور معلم عربی تقرری گورنمنٹ ہائی سکول نجف پور میں ہو گئی۔ 1999 میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بطور ایس ایس ٹی کھاریاں میں تقرری ہوئی تاہم جلد ہی ان کا تبادلہ گورنمنٹ ہائی سکول خان پور کر دیا گیا۔ مئی 2017 میں انہیں محکمانہ ترقی دے کر ماہر مضمون اسلامیات کی حیثیت سے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول جب میں تعینات کیا گیا۔
ضیاء الدین احمد کو زبان و بیان پر عبور حاصل ہے۔ سیرت النبی ﷺ پر ان کے تحقیقی مقالوں کو 2005 اور 2008 میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ ایف ایم 97 حسن ابدال پر ’سن رائز ایجوکیشن‘ کے عنوان سے تعلیمی پروگرام کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، روزنامہ اتحاد پشاور کے اداریہ صفحے پر ’مینارہ نور‘ کے عنوان سے ان کے کالم شائع ہوتے رہے ہیں۔
حافظ محمد حنیف سہارنپوری کی ہجرت کی داستان
ضیاء الدین احمد کے والد حافظ محمد حنیف سہارنپوری کی پیدائش 1935 میں ہوئی اور وہ 14 اگست 1982 کو وفات پا گئے۔ انہوں نے کم عمری میں مدرسہ عربیہ اسلامیہ، ریڑھی تاج پورہ ضلع سہارنپور سے قرآن پاک حفظ کیا۔ آٹھ برس کی عمر میں قرآن مجید مکمل کر لیا اور دس سال کی عمر تک اردو اور سادہ حساب کی تعلیم بھی مکمل کر لی تھی۔
جون 1947 میں ایک خاندانی ناراضگی کے بعد بغیر اطلاع کے گھر سے نکل کر سہارنپور سے دلی اور وہاں سے بمبئی پہنچے۔ قسمت نے یاوری کی اور رئیس احمد جعفری صاحب سے ملاقات ہو گئی جن کے ساتھ وہ رہنے لگے۔ تقسیم ہند کے بعد اکتوبر 1947 میں جعفری صاحب کے ساتھ کراچی آ گئے۔ کراچی میں علمی و ادبی ماحول کی بدولت انہیں اردو اور انگریزی زبان سے بھی شغف پیدا ہوا۔ بعد ازاں خان پور ہزارہ کے عبدالمجید صاحب کی دعوت پر وہ خان پور آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
ہندوستان کا سفر اور روحانی لمحات
ضیاء الدین احمد نے بتایا کہ ان کے والد نے 1960 میں پہلی بار پاکستان کے پاسپورٹ پر بھارت کا سفر کیا تاکہ اپنے والدین اور عزیز و اقارب سے ملاقات کر سکیں۔ 1979 میں انہوں نے اپنے والد کے ساتھ دوبارہ بھارت کا سفر کیا۔ اس وقت وہ جماعت ہشتم کے طالب علم تھے اور ذہنی طور پر خاصے باشعور تھے، اس لیے یہ سفر ان کے حافظے میں آج بھی محفوظ ہے۔
یہ سفر خان پور سے ٹیکسلا، پھر لاہور، سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے امرتسر اور وہاں سے سہارنپور تک بذریعہ ریل مکمل ہوا۔ سہارنپور میں عزیز و اقارب نے بھرپور محبت اور عزت سے استقبال کیا۔ اس دوران انہیں دارالعلوم دیوبند جانے کا بھی موقع ملا۔ انہوں نے اس مقام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جہاں انار کے درخت کے سائے میں دارالعلوم کی پہلی کلاس منعقد ہوئی تھی۔ انہیں چھتے والی مسجد کی زیارت بھی نصیب ہوئی، جہاں سے اس عظیم ادارے کا آغاز ہوا۔
نتیجہ
ضیاء الدین احمد کی زندگی ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح علم، محنت، صبر، اور روحانی نسبتیں کسی فرد کو معاشرے میں بلند مقام عطا کرتی ہیں۔ ان کے والد کی ہجرت کی داستان اور ان کا تعلیمی سفر نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ سہارنپور سے خان پور تک کا یہ علمی و روحانی سفر یقیناً تاریخ کے اوراق میں جگہ پانے کے قابل ہے
ضیاء الدین احمد, سہارنپور, خان پور ہزارہ, دارالعلوم دیوبند, مظاہر العلوم, اسلامیات کے ماہر, تعلیمی سفر, سیرت النبی, ہجرت کی کہانی, پاکستان کی تعلیمی شخصیات, مذہبی تعلیم، اردوانٹرویو