سینئر صحافی، شاعر و افسانہ نگار محمد ریاست کا انٹرویو – صحافت سے ادب تک کا سفر

Muhammad Riasat journalist, columnist and poet from Haripur
Muhammad Riasat journalist, columnist and poet from Haripur

ہری پور میں گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران صحافت کاآغازکرنے والوں کے لیے شایدمحمدریاست کی ذات اجنبی ہو لیکن نام ہرگز اجنبی نہیں ہوگا کیونکہ کراچی میں قیام کے باوجود وہ مقامی اخبارت میں کالم اور مضامین لکھتے رہتے ہیں البتہ نئے صحافی اس محمد ریاست سے ہر گز واقف نہیں ہوں گے جسے میں جانتا ہوں. انہوں نےدس سال تک ہری پورکی صحافت میں بہت فعال کردار ادا کیا. یہ وہ دور تھا جب ان کا قلم تلوار تھا اور سیاسی و معاشرتی مسائل پر ان کے قلم سے وہ خبریں اور کالمز نکلتے تھے جو یاران کو اچھے نہیں لگتے تھے. وہ تحقیقی اور تنقیدی صحافت میں اتنا آگے چلے گئے کہ انہیں راستے سے ہٹانے کا پروگرام بن گیا. یقینا” اس سے پہلے انہیں خریدنے کی کوشش بھی ہوئی ہو گی جس کی ناکامی پر یہ انتہائی قدم اُٹھایا گیا ہو گا تاہم وہ ایک بڑے قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے.

2004 میں وہ بسلسلہ روزگار اسلام آباد چلے گئے تو ہری پور کی صحافت میں فعالیت کم ہو گئی تاہم 2008 تک وہ اس شہر کی صحافت سے لاتعلق نہ رہ سکے اور لبرل یونین آف جرنلسٹس اور کچھ مقامی اخبارات کے ساتھ تعلق کی وجہ سے وہ صحافتی اور سیاسی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے رہے. 2008 میں وہ صحافت سے کنارہ کش ہو گئے.2012 میں جب وہ کراچی گئے تو کراچی کی علمی اور ادبی فضا انہیں راس آئی تو انہوں نے پھر انگڑائی لی اور ایک ادیب کی حیثیت سے پھر قلم سنبھال لیا. انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں جو وہ اس سے پہلے بھی لکھا کرتے تھے، دوبارہ لکھنا شروع کیں، پھر افسانے لکھنا شروع کئے جو پاکستان اور پڑوسی مُلک کے چیدہ چیدہ ادبی رسائل میں چھپنا شروع ہوئے. اسی دوران صحافت کا بھی دوبارہ آغاز کیا، اپنا مشہور زمانہ کالم “ریاست نامہ” دوبارہ لکھنا شروع کیا. اردو فاسٹ کے نام سے ایک نیوز ویب سائٹس بھی چلا رہے ہیں اور ہری پور سے شائع ہونے والے روزنامہ جیو ہزارہ کے کراچی سے اعزازی بیوروچیف ہیں

جہاں تک مجھے یادپڑتاہے محمد ریاست سے میری پہلی ملاقات ایڈیٹرشمال ملک نثاراحمدمرحوم (اے ڈی ای اوسپورٹس ذوالفقاراحمدکے بھائی اوربابوانواراحمدکے والد)کے زمان پلازہ مین بازارمیں واقع پی سی اوپرہوئی ملک نثاراحمدمرحوم کے ساتھ اگرچہ میراکوئی خاص قریبی تعلق نہیں رہالیکن میں ہمیشہ انکے جرات مندانہ صحافتی کرداراوربے لاگ تحریروں اوررپورٹنگ کامعترف رہاہوں ان کی صحافت کاعکس مجھے محمدریاست کی 20سال پہلے کی صحافت میں نظرآتاہے

محمد ریاست کاتعلق ضلع ہری پورکے گاؤں مکھن کالونی سے ہے جوکہ ہری پورشہرکے نواح میں تربیلہ روڈپرواقع ہے آپ آج کل ایک فارماسیوٹیکل کمپنی کے ساتھ کراچی میں کام کررہے ہیں گزشتہ دنوں ہری پورآئے توملاقات کے لیے تشریف لائے ملاقات میں ہونے والی گفتگوپیش خدمت ہے

س: کہاں اور کب پیداہوئے؟

ج۔میں 15جنوری1979کوضلع ہری پورکے گاؤں مکھن کالونی میں پیداہوا۔

س: تعلیم کن اداروں سے حاصل کی؟

ج:ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول مکھن کالونی سے حاصل کی جبکہ میٹرک 1995میں گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1ہری پورسے کی گورنمنٹ ڈگری کالج ہری پورسے 1997میں ایف ایس سی کی جبکہ ایک سال کے وقفے کے بعد2000ئمیں اصغرمال کالج راولپنڈی سے بی ایس سی کی جامعہ پنجاب سے ایم اے انگلش لٹریچرپرائیویٹ طورپر2002 میں کیا۔

س:صحافت کاآغازکب اورکس پلیٹ فارم سے کیا؟

ج:1992 میں جب میں ساتویں کا طالبعلم تھا تو پہلی دفعہ کہانی لکھی جو پھول اور کلیاں (نوائے وقت) میں چھپی تھی،اخبارات سے تعلق اس سے بھی قبل کا ہے،گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1ہری پورمیں دوران تعلیم بزم ادب کے انچارج اقبال لطیف صاحب کی تحریک پرپہلی تحریر بزم ادب کی ایک رپورٹ تھی جو مقامی رسالے نشتر میں چھپی تھی کیونکہ میں اس وقت سکول کی بزم ادب کا جنرل سیکریٹری تھا. انھوں نے تحریروتقریرمیں میراشوق دیکھتے ہوئے مجھے قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ بھی چھٹی کلاس میں ہی تحفتاً دے دی تھی یوں مجھے یہ ضخیم کتاب چھٹی کلاس میں پڑھنے کا موقع ملا ہفت روزہ نشترمیں بھی میری تحریریں چھپتی رہیں جس کے ایڈیٹر اور ناشر مدنی اعجاز جدون تھے. پھر روزنامہ شمال کے ہری پور سے انچارج نمائندگان الطاف ماما جو کہ الطاف پرنٹنگ پریس کےمالک اور روزنامہ شمال کے چیف ایڈیٹر نیاز پاشا جدون کے ماموں تھے کی تحریک پر روزنامہ شمال سے عملی صحافت کا باقاعدہ آغاز کیا. یہ 1996 کی بات ہے اور اس وقت میں ڈگری کالج ہری پور (اب پوسٹ گریجویٹ) میں ایف ایس سی سال اول کا طالب علم تھا. ماہنامہ پھول لاہور جو کہ نوائے وقت کا بچوں کے لیے ایک ممتاز رسالہ ہے نے مُلک بھر میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے پھول کلبز کے نام سے ایک تنظیم بنائی تو میں اُس کا ضلعی صدر بن گیا اور بعد ازاں صوبائی صدر بن کر صوبہ سرحد میں صوبائی سطح پر کئی تفریحی اور معلوماتی پروگرام منعقد کیے. نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی صاحب نے نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن بنائی تو مجھے ہزارہ ڈویژن کا آرگنائزر بنایا تاہم میں اس کے لیے زیادہ عرصہ کام نہ کرسکا اور مجید نظامی صاحب کی رحلت کے بعد تنظیم سے کنارہ کش ہو گیا

س:کن کن اخبارات ورسائل کے ساتھ کام کرچکے ہیں؟

ج:کئی اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہا۔روزنامہ نوائے وقت،اوصاف،پاکستان،نیا اخبار،دنیا،شمال،اتحاد،روزنامہ صبح، آج،محاسب،رسائل میں ماہنامہ پھول لاہور،ہفت روزہ کندن،ہفت روزہ کرائم وژن وغیرہ وغیرہ آج کل روزنامہ جیوہزارہ کراچی ایڈیشن کے ساتھ کراچی میں بطور بیورو چیف کام کررہاہوں۔اس کے علاوہ مختلف مُلکی اور بین الاقوامی رسائل میں کہانی،افسانہ،شاعری چھپتی رہتی ہے اور اخبارات میں کالم،زیادہ توجہ اپنی جاب پر ہے اور اپنی ویب سائٹس پر جواردوفاسٹ اور ریاست نامہ کے نام سے ہیں

س:صحافت میں کس کواپنااستادسمجھتے ہیں؟

ج:ملک نثاراحمدمرحوم میرے آئیڈیل صحافی اورمیرے استادتھے میری ان سے ملاقات ہوئی توانھوں نے مجھے روزنامہ آج کی نمائندگی دلوائی انکے زیرسایہ کافی عرصے تک کام کرنے کاموقع ملاوہ کہتے تھے کہ رپورٹرہوتاہی وہ ہے جس کی خبرپراگرکچھ لوگ اسکی تعریف کرتے ہیں توکئی لوگ گالیاں بھی دیتے ہیں. خبرنہ توقصیدہ ہواورنہ ہی بدنیتی پرمبنی ہونی چاہیے بلکہ بغیرلگی لپٹی اپنی رائے شامل کیے بغیراصل حقائق کورپورٹ کردیناچاہیے استاد محترم کی ہدایات کے مطابق ہمیشہ غیرجانبدارانہ او رحقائق پر مبنی رپورٹنگ کی جس کواگر چہ عوامی حلقوں کی طرف سے سراہا گیا لیکن اس کے ساتھ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ باالخصوص ہری پو رکے بعض اشوز کو رپورٹ کرنے پر عدالتی کاروائیوں کا سامنا بھی کرناپڑا لیکن ہمیشہ ہر فورم پر سرخرورہا۔اس زمانے میں میرے کالم کا نام آئینہ ہوا کرتا تھا۔

س:کن صحافتی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں؟

ج:اپنی صحافتی کیریئر کی شروعات میں ملک نثاراحمد مرحوم اور شوکت حیات اعوان کے ساتھ ڈسٹرکٹ جرنلسٹس یونٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا اس کے علاوہ ہری پور یونین آف جرنلسٹس میں بطور جوائنٹ سیکرٹری کام کیا لبر ل یونین آف جرنلسٹس کے ساتھ بھی مُنسلک رہا. جب مجھ پر قاتلانہ حملہ ہواتوڈاکٹر چن مبارک ہزاروی نے جرنلسٹس ڈیفنس کونسل کا قیام عمل میں لایا اس تنظیم کا بانی جنرل سیکریٹری ہونے کا اعزاز بھی میرے حصے میں آیا۔مجھ پر قاتلانہ حملے کے رد عمل میں نہ صرف ہری پور کی تمام صحافتی تنظیموں بلکہ تاجروں، وکلاء، علماء او رسیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا لیکن آج تک حملہ آوروں کا پتہ نہ چل سکا ہے جن لوگوں پر شک کا اظہارکیا جارہا تھا انھوں نے حلفیہ طورپر قاتلانہ حملے سے کسی بھی قسم کے تعلق سے صاف صاف انکار کردیا اس موقع پر بعض مخالفین کی طرف سے یہ بھی الزام لگایا گیا کہ میں نے مشہورہونے کے لیے حملے کا ڈرامہ کیاہے تایم اس وقت پہلی دفعہ ہری پور کی تمام صحافتی تنظیمیں ایک جگہ اکٹھی ہوئیں اور میرے لیے آواز بلند کی

س:دو بارہ لکھنے لکھانے کی طرف سے کیسے مائل ہوگئے؟

ج:2012ء میں کراچی میں شفٹ ہوا تو وہاں کے علمی و ادبی ماحول سے دوبارہ تحریک ملی، کچھ رسائل کے مدیران نے بھی اہم کردار ادا کیا جنہوں نے بار بار اصرار کر کے مُجھ سے لکھوایا

سوال:کوئی کتاب چھپی، کس نام سے، کب اور اس کو کتنی پزیرائی ملی؟

۔”خواب چور“ کے نام سے میری کتاب 2016 میں چھپی،یہ بچوں کے لیے لکھی گئی میری کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کوبہت پزیرائی ملی

اس کا پہلا ایڈیشن دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوگیا. کتاب کے پبلشر اور میرے دوست ذیشان شیخ پرائڈ پبلیکیشن کی اچانک وفات کی وجہ سے کتاب کا دوسرا ایڈیشن نہ آسکا. اب کراچی کے ایک ناشر سے بات ہوئی کچھ ترامیم کے ساتھ کتاب کا دوسرا ایڈیشن جلد منظر عام پر آئے گا. خواب چور کو نیوی کے کالجز کے نصاب میں بطور ٹیکسٹ بک شامل کیا گیا ہے افسانوں کا ایک مجموعہ”خدا،گڑیا اور خدا“ اور ایک ناول”وقت سے آگے“ زیر طباعت ہیں۔میرے افسانے نہ صرف پاکستان کے ادبی رسائل و جرائد بلکہ پڑوسی ممالک کے رسائل میں بھی چھپتے رہتے ہیں. ماہنامہ ندائے گل لاہور نے اپنے سالنامہ میں مُلک کے ممتاز ادیبوں کے ساتھ خاکسار کی تصویر کو بھی سرورق پر جگہ دی جو ایک اور اعزاز ہے میرے لیے.

س: ادب کی کون سی صنف زیادہ پسند ہے؟

ج:ادب کی تما م اصناف میں سے مجھے افسانہ سب سے زیادہ پسند ہے۔2018ء میں انہماک انٹرنیشنل فورم نے افسانوں کا ایک عالمی مقابلہ کروایا جس میں میرے افسانے ووٹ کو دوسری پوزیشن ملی اور اس افسانے کی وجہ سے مجھے ادیبوں اور شعراء میں شہرت اور پہچان ملی۔ایک دفعہ کراچی آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس میں جنا ب انتظار حسین مدعو تھے،ایک دوست نے کہا آؤ آپ کی ملاقات کرواتا ہوں،میری یہ اُن سے پہلی ملاقات تھی،جیسے ہی ہم ان کے پاس پہنچے وہ کھڑے ہو گئے کہنے لگے آؤ بھائی ریاست،تمہارا افسانہ ”ووٹ“ مجھے بہت پسند آیا ہے۔میرے ساتھ ساتھ مجھے لے کر جانے والے دوست بھی حیران تھے۔

س:کیا آپ شاعر ی بھی کرتے ہیں؟پسندیدہ شاعر کون ہے؟

ج:کراچی آنے سے قبل تو شاعری نہیں کرتاتھا لیکن اکادمی ادبیات کے مشاعروں میں شرکت کی وجہ سے شاعری بھی کرنے لگاکئی نظمیں اور غزلیں لکھ ڈالیں جو اکادمی کے مشاعروں کے علاوہ دیگر مشاعروں میں بھی سنائیں۔بڑے ناموں میں سے تو غالب،اقبال،میر کا نام سبھی لیتے ہیں میں بھی لوں گا مگر ذاتی طور پر جن لوگوں سے متاثر ہوں وہ زیادہ معروف نہیں ہیں۔غزل میں ریاض ساغر،انجم عثمان،الحاج نجمی،شبیر نازش اور وقار زیدی نے بہت متاثر کیا ہے،نظم میں سعید اشعر کے پائے کا شاعر میں نے نہیں دیکھا،بہت ہی عمدہ نظم کہتے ہیں،وہ غزل کے بھی باکمال شاعر ہیں مگر میں ان کی نظمیں بہت پسند کرتا ہوں۔فاخرہ انجم،ڈاکٹر عمرانہ مشتاق اور آسناتھ کنول بھی میرے پسندیدہ شعرا میں شامل ہیں

س:شعر وشاعری اور نثر میں کس کو استاد مانتے ہیں؟

ج:شاعری میں الحاج نجمی صاحب سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے،ان کی شاگردی بھی اختیار کی ہے اور اصلاح بھی لی ہے،نثر میں کسی سے اصلاح تو نہیں لی شاگردی بھی اختیار نہیں کی لیکن کئی ایسے ادیب ہیں جن کی تحریریں پڑھ کرلکھ

انڑویو نگار کا تعارف

حافظ سرفراز خان ترین ہری پور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر استاد، ادیب، محقق اور بلاگر ہیں جو گزشتہ دو دہائیوں سے تعلیم، صحافت اور ادب کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ “تعلیم نامہ” اور “Hazara Guide” جیسے علمی و معلوماتی پلیٹ فارمز کے بانی اور مدیر ہیں۔ حافظ سرفراز ترین کا قلم تعلیمی مسائل، معاشرتی حقیقتوں اور علاقائی شخصیات کے تعارف میں گہری بصیرت رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک تربیت یافتہ معلم ہیں بلکہ تاریخ، ادب اور شخصیات پر تحقیقی تحریریں ان کی شناخت بن چکی ہیں۔

اس انٹرویو میں انہوں نے سینئر صحافی، کالم نگار، شاعر اور افسانہ نگار محمد ریاست کی زندگی، فکری جہتوں، صحافتی خدمات اور ادبی سفر پر ایک بصیرت افروز گفتگو کو قلم بند کیا ہے جو قاری کو محمد ریاست کی شخصیت کے کئی رنگوں سے روشناس کراتی ہے۔

#محمد_ریاست #ہری_پور_کے_ادباء #پاکستانی_صحافت #اردو_افسانہ #اردو_شاعری #ادبی_انٹرویو #سرفراز_ترین #ریاست_نامہ #ادب_اور_صحافت #تعلیم_نامہ #ہزارہ_ادب #ادبی_شخصیات #کراچی_کے_ادیب #خواب_چور #ووٹ_افسانہ





Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *