نواز حسین ہاشمی کا سفرِ فوٹوگرافی: ایک سینئر پریس فوٹوگرافر کی زبانی

نواز حسین ہاشمی کا سفرِ فوٹوگرافی: ایک سینئر پریس فوٹوگرافر کی زبانی
Haripur: Nawaz Hussain Hashmi senior photographer of Haripur interview with sarfraz tareen

سینئر پریس فوٹوگرافر نواز حسین ہاشمی سے ایک ملاقات

نواز حسین ہاشمی ہری پور کے ان چند نامور افراد میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ فوٹوگرافی، خاص طور پر پریس فوٹوگرافی کو وقف کر رکھا ہے۔ ان کا تعلق فوٹوگرافی کے اس خاندان سے ہے جو متحدہ ہندوستان کے دور میں بھی اس فن سے وابستہ تھا۔ ہاشمی صاحب نے نہ صرف اپنے والد کے ساتھ کام سیکھا بلکہ بیرون ملک جا کر بھی تجربہ حاصل کیا اور واپس آ کر ہری پور میں فوٹوگرافی کی روایت کو زندہ رکھا۔ ضلعی سطح پر ان کی خدمات کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ اس انٹرویو میں ہم نے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔


سرفراز ترین: آپ کا تعلق کہاں سے ہے اور ابتدائی زندگی کیسی گزری؟
نواز ہاشمی: میرا آبائی گاؤں چھوئی خانپور ہے لیکن میری پیدائش یکم مئی 1948 کو اپنے ننھیال کالی تراڑ میں ہوئی۔ چار سال کی عمر میں والدین کے ساتھ سرائے صالح منتقل ہوا۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول سرائے صالح سے حاصل کی اور 1967ء میں گورنمنٹ ہائی سکول سرائے صالح سے میٹرک کیا۔

سرفراز ترین: کالج کی زندگی کیسی رہی اور کون سے اساتذہ یاد ہیں؟
نواز ہاشمی: میٹرک کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج ہری پور میں داخلہ لیا۔ یہ نیا کالج تھا، ان دنوں طلبہ کی تعداد بھی کم ہوتی تھی۔ یاد ہے کہ ہمارے وقت میں پشتو اور فارسی بھی پڑھائی جاتی تھیں۔ پروفیسر سلیمان دانش، صوفی رشید، عبدالرحمان اور غلام سرور جیسے بڑے نام اساتذہ میں شامل تھے۔

سرفراز ترین: تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کا آغاز کیسے ہوا؟
نواز ہاشمی: ان دنوں ملازمت آج کی طرح مشکل سے ملتی تھی۔ غربت کا زمانہ تھا، کچے گھر اور محدود وسائل۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب ہر شخص کو پاسپورٹ بنانے کی اجازت ملی، تو بہت سے لوگ بیرون ملک گئے۔ میں نے بھی جرمنی کا رخ کیا اور پانچ سال وہاں کام کیا۔

سرفراز ترین: فوٹوگرافی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
نواز ہاشمی: میں نے 1971ء میں اپنے والد کے ساتھ “ہاشمی فوٹوز” پر کام شروع کیا۔ اس وقت ہری پور میں فوٹوگرافی کی صرف تین دکانیں تھیں۔ والد صاحب نے بمبئی، اجمیر اور سنگاپور میں فوٹوگرافی سیکھی تھی۔ ان کے تجربے سے بہت کچھ سیکھا۔

سرفراز ترین: بیرون ملک سفر کا تجربہ کیسا رہا؟
نواز ہاشمی: کابل، تاشقند، ماسکو، یوگوسلاویہ، بلغاریہ، آسٹریا سے ہوتے ہوئے مغربی جرمنی پہنچا۔ ان شہروں کی تہذیب، ترقی اور نظم و ضبط نے مجھے بہت متاثر کیا۔ وہاں پانچ سال تک مختلف کام کیے اور تجربات حاصل کیے۔

سرفراز ترین: واپسی پر فوٹوگرافی کو کیسے جاری رکھا؟
نواز ہاشمی: 1982ء میں واپسی پر سرکلر روڈ پر فوٹوگرافی کا دوبارہ آغاز کیا۔ اس بار پریس فوٹوگرافی کو بھی اپنا لیا۔ ہری پور میں اس وقت صرف چند صحافی تھے، جن کے ساتھ مل کر مختلف تقریبات کی تصاویر اخبارات کو بھجواتا تھا۔

سرفراز ترین: ڈیجیٹل فوٹوگرافی کے دور میں کیا تبدیلی محسوس کی؟
نواز ہاشمی: پہلے ہر تصویر کی پرنٹنگ، کیپشن اور اخبار کو بھجوانا ایک محنت طلب عمل تھا۔ بعد میں فوٹوشاپ اور ای میل کے ذریعے کام آسان ہوگیا۔ اب صرف ایک کلک پر سب کچھ ممکن ہے۔

سرفراز ترین: موجودہ دور میں فوٹوگرافی آپ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟
نواز ہاشمی: اب یہ شوق اور جذبے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مالی ضروریات تو بیٹے پوری کرتے ہیں، میں صرف جیب خرچ کے لیے فوٹوگرافی کرتا ہوں اور تقریبات میں شرکت سے پرانے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔

سرفراز ترین: فوٹوگرافی کے میدان میں آپ کی خدمات کو کیسے سراہا گیا؟
نواز ہاشمی: مختلف اداروں، ضلعی انتظامیہ، عدلیہ اور دیگر شعبوں کی طرف سے تعریفی اسناد ملیں، یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ میری کوشش ہمیشہ یہی رہی کہ فوٹوگرافی کے ذریعے ہر لمحے کو خوبصورتی سے محفوظ کیا جائے۔

نوازحسین ہاشمی #پریسفوٹوگرافی #ہریپور #پاکستانی فوٹوگرافر #ہاشمیفوٹوز #تاریخی انٹرویو #سرفرازترین #فوٹوگرافیکاسفر #اردوبلاگ #تعلیم نامہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *