تعلیم صرف نصاب اور جماعت تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل فکری، اخلاقی اور سماجی ارتقاء کا نام ہے۔ ایسے افراد جو نہ صرف تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیتے ہیں بلکہ تعلیمی پالیسیوں، اساتذہ کی فلاح، اور طلبہ کی فکری نشوونما میں بھی بھرپور کردار ادا کرتے ہیں، وہ معاشرے کے حقیقی معمار کہلاتے ہیں۔ محمد آصف خان انہی افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی عملی زندگی کا بیشتر حصہ تعلیم و تربیت، تدریسی اصلاحات، اور سماجی بہتری کے لیے وقف کر رکھاہےتعلیم نامہ کے لیے سرفرازترین کے ساتھ ان کا خصوصی انٹرویوسوالاًجواباًپیش خدمت ہے ۔

سوال: آپ اپنا تعلیمی اور خاندانی پس منظر ہمارے قارئین سے شیئر کریں؟ جواب: میرا نام محمد آصف خان ہے۔ میں ۱۳ فروری ۱۹۶۱ کو کھبل (اتمان)، تربیلہ کے علاقے میں بہادر شیر خان کے ہاں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول کھبل سے حاصل کی، اس کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول تربیلہ میں داخل ہوا۔ چونکہ سکول اور گاؤں کے درمیان دریائے سندھ حائل تھا، اس لیے ہم کشتی کے ذریعے سکول جایا کرتے تھے۔
سوال: تربیلہ ڈیم کی تعمیر کے بعد آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟
جواب: تربیلہ ڈیم کی تعمیر کے بعد ہم بھی دیگر متاثرین کی طرح نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ہم جامعہ اتمان میں آ بسے۔ تربیلہ سکول کھلابٹ ٹاؤن شپ میں منتقل ہوا۔ تربیلہ گاؤں کی پرانی عمارت کے میٹیریل کو اس وقت کے ہیڈ ماسٹر ملک دوست محمد صاحب کی نگرانی میں اپنی مدد آپ کے تحت تربیلہ ٹاؤن شپ میں منتقل کیا گیا اور پرانے میٹیریل سے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیرات کی گئیں
سوال: میٹرک کے بعد آپ نے کس تعلیمی سفر کا انتخاب کیا؟
جواب: میٹرک ۱۹۷۷ میں پاس کیا۔ ایف اے کے بعد بنک میں ملازمت کا ارادہ تھا، لیکن ایک دوست کے مشورے پر محکمہ تعلیم میں بطور ان ٹرینڈ سی ٹی ٹیچر شامل ہوا۔ یوں تدریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔
سوال: تدریس کے ابتدائی ایام کیسا تجربہ رہا؟
جواب: پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ مڈل سکول پھلہ ایبٹ آباد میں ہوئی، لیکن صرف چوبیس دن بعد میرا تبادلہ گورنمنٹ ہائی سکول ڈھینڈہ میں ہو گیا۔ پھر میں نے سی ٹی شارٹ ٹرم کورس، گریجویشن اور 1987-89 میں پنجاب یونیورسٹی سے ریگولر ایم اے ایجوکیشن کیا۔
سوال: جرمن پراجیکٹ میں آپ کی شمولیت کیسے ہوئی؟
جواب: ۱۹۹۸ میں جرمن حکومت کے تعاون سے معیارِ تعلیم بہتر بنانے کا منصوبہ شروع ہوا۔ سخت مقابلے کے بعد میں ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر (ماسٹر ٹرینر) منتخب ہوا۔ اساتذہ کو ٹریننگ دی، ہری پور ضلع کا ماڈل اپنایا گیا، اور میری کارکردگی کو صوبائی سطح پر سراہا گیا۔
سوال: این سی ایچ ڈی میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
جواب: ۲۰۰۲ میں مردان میں بطور سیکٹر سپیشلسٹ شمولیت اختیار کی۔ بچوں کا ڈیٹا، داخلے، نان پرائمری سکولز اور تعلیم بالغاں پر کام کیا۔ ۲۰۰۵ میں پروگرام مینجر، پھر بلوچستان اور بعد ازاں خیبرپختونخوا و فاٹا کے لٹریسی پروگرامز کا کوآرڈینیٹر مقرر ہوا۔
سوال: بطور ڈسٹرکٹ جنرل منیجر ہری پور میں آپ نے کیا خدمات انجام دیں؟ جواب: ۲۰۰۷ میں ہری پور تعیناتی ملی۔ تعلیم، صحت اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ میں کام کیا۔ اسکولز میں ٹیکنیکل لیبز کی اپگریڈیشن کی نگرانی کی۔ ۱۹ لیبز کو فعال کیا۔
سوال: محکمہ تعلیم میں واپسی پر آپ کو کیا ذمہ داریاں دی گئیں؟
جواب: واپسی پر اے ڈی ای او سپورٹس تعینات ہوا۔ بعد ازاں این سی ایچ ڈی نے پھر خدمات حاصل کیں۔ بطور نیشنل پروگرام کوآرڈینیٹر پاکستان بھر کی تعلیم بالغاں کی پلاننگ اور نگرانی کا موقع ملا۔
سوال: دوبارہ محکمہ تعلیم میں واپسی کے بعد آپ نے کیا کارہائے نمایاں انجام دیے؟
جواب: سرکل کوٹ نجیب اللہ میں بطور اے ایس ڈی ای او کام کیا۔ اساتذہ کی ٹریننگ کی۔ کمیونٹی کے تعاون سے کمروں کی تعمیر کے لیے گرانٹس کو مؤثر بنایا۔ ۱۰ کمروں کی بجائے ۲۴ کلاس رومز بنوائے۔
سوال: بطور ہیڈماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ۳ ہری پور کی کارکردگی کیسی رہی؟
جواب: ۲۰۱۶ میں تعیناتی ہوئی۔ عمارت، فرنیچر، لیبارٹری جیسے مسائل تھے۔ پیرنٹس ٹیچرز کونسل کے ساتھ مل کر مسائل حل کیے۔ نئے فنڈز حاصل کیے۔ تعلیمی ماحول بہتر بنایا۔ طلبہ نے نمایاں نتائج دیے۔ نئی بلڈنگ تعمیر کروائی جس میں جناب یوسف ایوب خان کے تعاون کا شکریہ کہ کھنڈرات سے سکول بنا۔
سوال: اساتذہ برادری کے لیے آپ کی جدوجہد کے بارے میں کچھ بتائیں؟ جواب: ایس ایس ٹی کی اپ گریڈیشن، ٹائم سکیل، گریڈ ۱۷ کی منظوری کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ سکولز آفیسرز ایسوسی ایشن کے ضلعی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے اساتذہ کی نمائندگی کی۔
سوال: کیا کبھی کسی قانونی یا انتظامی چیلنج کا سامنا ہوا؟
جواب: ۲۰۱۷ میں جب ایکٹ کے ذریعے اساتذہ کو سول سرونٹ سے پبلک سرونٹ بنانے کی کوشش کی گئی تو ہری پور نے میری قیادت میں صوبے بھر میں مزاحمت کی اور یہ کوشش ناکام بنائی۔
سوال: آخر میں، آپ نئی نسل کے اساتذہ اور طلبہ کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟ جواب: اپنے پیشے سے مخلص رہیں، علم کو صدق دل سے سیکھیں اور سکھائیں۔ مستقل مزاجی، دیانت اور لگن سے ہر کام ممکن ہے۔ کامیابی انہیں ہی ملتی ہے جو سیکھنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اپنے تعلیم و تعلم کو فعال بنائیں اور طلبہ کو شامل تدریس کریں اس کے لیے بہترین طریقہ سوال ہے اور اخذ کرنا ہے۔
سوال: آپ کی نظر میں پاکستان میں تعلیمی معیار کے زوال کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ حکومت، اساتذہ، والدین یا خود طلبہ؟
جواب: تعلیم ایک سماجی عمل ہے اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اپنا اپنا کردار ہے۔ ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال تک کے بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم کا بندوبست کرے۔ اساتذہ اور والدین باہمی اشتراک سے بچے کی زندگی کو سنوارنے کے زمہ داری پوری کریں۔ بچہ مختلف مدارج میں آگے بڑھتا ہے اور سنجیدگی اختیار کرتا ہے اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔
سوال:سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار نجی اداروں کی نسبت کیوں زیادہ متاثر نظر آتا ہے؟
جواب: چونکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے حکومت کا ہاتھ بٹا رہے ہیں اچھی بات ہے تاہم ان کو اپنے اداروں کی بقاء کے لیے خوب محنت کرنی پڑتی ہے۔
سوال: آپ کی نظر میں پاکستان میں تعلیمی معیار کے زوال کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ حکومت، اساتذہ، والدین یا خود طلبہ؟
جواب: تعلیم ایک سماجی عمل ہے اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اپنا اپنا کردار ہے۔ ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال تک کے بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم کا بندوبست کرے۔ اساتذہ اور والدین باہمی اشتراک سے بچے کی زندگی کو سنوارنے کے زمہ داری پوری کریں۔ بچہ مختلف مدارج میں آگے بڑھتا ہے اور سنجیدگی اختیار کرتا ہے اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔
سوال۔ سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار نجی اداروں کی نسبت کیوں زیادہ متاثر نظر آتا ہے؟ جواب: چونکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے حکومت کا ہاتھ بٹا رہے ہیں یہ بہت اچھی بات ہے تاہم ان کو اپنے اداروں کی بقاء کے لیے خوب محنت کرنی پڑتی ہے۔ گورنمنٹ سیکٹر میں اگر استاد کی آسامی خالی ہے تو بیروکریٹک پراسس سے ترقی یا تقرری ہوتی ہے اکثر دیہاتی ادارے دیر تک خالی اور متاثر رہتے ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں ایک دن ضائع کئے بغیر میرٹ یا ویٹنگ لسٹ سے استاد میسر کر دیا جاتا ہے۔ اور، مانیٹرنگ بھی نجی مالکان بہتر کرتے ہیں ان کا ذاتی ادارہ ہوتا ہے مگر یہ شہری علاقوں کی حد تک محدود ہیں جبکہ ریموٹ ایریاز میں پبلک سیکٹر ہی کام کر رہا ہے۔ نیز پرائیویٹ سیکٹر میں پرائمری سکولز میں ہر کلاس بلکہ ہر سیکشن کے لیے استاد مقرر ہوتا ہے جبکہ گورنمنٹ میں ملٹی ٹیچنگ ہوتی ہے اسی طری پرائیویٹ سیکٹر میں ایلیمنٹری لیول سے ہی سبجیکٹ ٹیچرز مہیا ہوتے ہیں جبکہ پبلک سیکٹر میں سیکنڈری سطح پر بھی سجیکٹ ٹیچرز نہیں ہوتے۔ سرکاری اداروں کے معیار کے متاثر ہونے کی یہ وجوہات بھی ہیں۔
سوال: کیا موجودہ تعلیمی پالیسیاں اس معیار کے زوال کو روکنے میں مؤثر رہی ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
جواب: پالیسی کوئی بھی خراب نہیں ہوتی مگر ضروری ہوتا ہے کہ اس پر من و عن عمل کیا جائے اور طلبہ کے مفاد میں اس پر امپیکٹ سٹڈیز کی جائیں اور اس میں بہتری لائی جائے۔ اس کے لیے سنجیدگی اور ”گُڈوِل” کی ضرورت ہے۔ اکثر تعلیمی پالیسیوں کو دیکھا جائے تو وہ بہترین ہیں اور تسلسل میں ہیں۔ مسائل عملدرآمد میں پیش ہیں۔
سوال: گرتے ہوئے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے آپ کیا عملی تجاویز دینا چاہیں گے؟
جواب: اس سوال کا بہت وسیع جواب دینا ہو گا کہ معیار تعلیم کے گرنے کی سینکڑوں وجوہات ہیں مگر سب سے اہم وجہ تعلیم اشرافیہ کی قومی ترجیح ہی نہیں۔ نہ ہی اس کے لیے درکار بجٹ (جی ڈی پی کا 5 سے 7 فیصد) رکھا جاتا ہے جبکہ جو تھوڑا بہت بجٹ (1.5 سے 1.7 فیصد) رکھا جاتا ہے اس میں سے بھی تنخواہوں کی مدد میں پوسٹیں خالی رکھ کر بچت کی جاتی ہے جس سے بچے کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
سوال: اساتذہ کی تربیت اور ان کی کارکردگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟
جواب: ایک عرصہ ہوا ہے کہ اساتذہ کی پری سروس تربیت نہیں ہو رہی بلکہ نوکری کے حصول کے لیے اس کی شرط ہی ختم کر دی گئی ہے جس سے انٹریند لاٹ آئی ہے اگرچہ انڈکشن ٹرینگ کے نام پر معمولی سی تربیت دی گئی جو پری سروس کے متبادل ہر گز نہیں۔ تاہم، ان جاب ٹرینگز کا بہتر اثر ہوتا ہے اگر حکومتی سطح پر منعقد کی جائیں اور ان کا فالو اپ بھی ہو تو اساتذہ کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ باقاعدگی سے اسسمنٹ، تعلیمی نگرانی اور فیڈبیک سے کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔
سوال: والدین کی تعلیمی نظام میں شمولیت کس حد تک اہم ہے؟ اور اسے کیسے مؤثر بنایا جا سکتا ہے؟
جواب: والدین اور اساتذہ چکی کے دو پہیئے ہیں۔ تعلیم و تربیت میں دونوں کا اہم کردار ہے۔ والدین کی شمولیت کے لیے سربراہ ادارہ اور اساتذہ کو چاہیئے کہ ہر بچے کا ریکارڈ رکھیں اور والدین کو فیڈبیک دیں۔ والدین سے رابطہ میں رہیں۔
سوال: طلبہ کو تعلیم کی طرف رغبت دلانے کے لیے کون سے تعلیمی یا سماجی عوامل ضروری ہیں؟ جواب: اساتذہ تعلیم و تعلم کو دلچسپ بنانے کے لیے تیاری کر کے پڑھائیں، تعلیمی سرگرمیوں سے فعال تعلم کو یقینی بنائیں تو طلبہ خود بخود دلچسپی لیں گے اور سماج کے کامیاب لوگوں کی مثالیں بچوں کو دی جائیں جس سے بچوں کو ترغیب ملے گی۔ معاشرہ میں بہتر لوگوں سے اٹھنا بیٹھنا بھی ضروری ہے ورنہ بے راہ روی کا شکار ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں استاد کو تدریس سے رغبت کیسے دی جا سکتی ہے؟ جواب: بچہ ماحول سے سیکھتا ہے مگر سب سے زیادہ اپنے استاد سے متاثر ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ استاد کی عادات تک کاپی کرتا ہے اس لیے استاد کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایک اچھا انسان اور بہتر مدرس بن کر پیش ہو۔ رہی بات استاد کو تدریس سے رغبت دینے کی اس کے لیے پری سروس تربیت ضروری ہے۔ دوران سروس بار بار تربیت سے استعداد کار بڑھائی جانی چاہیئے جس میں فالو اپ، فیڈبیک اور تحسین ضروری ہے۔
سوال:موجودہ نظامِ امتحان تعلیم کی اصل روح کو کس حد تک متاثر کر رہا ہے؟ جواب: چونکہ نظام تعلیم و تعلم اسسمنٹ (جائزہ) کے گرد گھومتا اور تابع ہوتا ہے۔ امتحان کی ڈیمانڈ رٹا ہو تو استاد اور بچے رٹا پر زور دیتے ہیں۔ اگر اسے تفہیم اور اطلاق تک بڑھایا جائے تو استاد اور بچے ان ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر تعلیم و تعلم کو بہتر کرنا ہے تو نظام امتحانات کو معیاری اور شفاف بنانا ہو گا۔
سوال: امتحانی نظام کو شفاف، منصفانہ اور معیاری بنانے کے لیے کیا اصلاحات ضروری ہیں؟
جواب: امتحان طلبہ کے تعلم کو پرکھتا ہے اور ان کی بڑھوتری میں معاون ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو نصاب کے مقرر کردہ ایس ایل اوز کی تفہیم دی جائے انھیں اطلاق سکھایا جائے۔ جب تعلم فعال اور دیر پا کر دیا جائے تو بچے کو ضرورت ہی نہیں رہتی کہ وہ نقل کا سوچے بھی! دوسرے والدین اور اساتذہ طلبہ کو ایمانداری اور دیانتداری کا درس دیں/ عملی نمونہ بن کر دکھائیں تو اس سے بھی بہتری آئے گی۔
سوال:بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں ابھرنے اور تنقیدی سوچ پیدا کرنے کے لیے کون سا تدریسی ماڈل مؤثر ہو سکتا ہے؟
جواب: تعلیم و تعلم کا کوئی ماڈل بھی لیں اس میں خوبیاں پنہاں ہوتی ہیں کچھ کمزوریوں بھی ہوتی ہیں۔ سب سے بہترین ماڈل وہ ہے جو استاد بچوں کی ضروریات کو ہورا کرنے کے لیے مختلف ماڈلز سے چن کر استعمال میں لاتا ہے۔ فعال تعلم کے لیے سرگرمیوں اور طلبہ کی شمولیت سے تعلم بہتر ہوتا ہے۔ سوال: آپ کا مشورہ نئی تعلیمی پالیسی بنانے والوں کے لیے کیا ہوگا؟
جواب: تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیا جائے اور نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے طلبہ اور نظام تعلیم کی بہتری کے لیے تجاویز مرتب کی جائیں اور ان پر عمل کیا جائے۔ بہترین تعلیمی پالیسی ترتیب دینے کے لیے گراس روٹ لیول سے اعلیٰ عہدے دار، مختلف فیلڈز کے ماہرین اور والدین کو طلبہ کی بہتری کے لیے شامل کیا جائے تب ہی بہتر تعلیمی پالیسی مرتب ہو سکے گی۔ صرف اعلیٰ عہدے داروں کی شمولیت اور محض کٹ پیسٹ سے بہتری ممکن نہیں!