سابق ای ڈی ای ا وہر ی پورعبدالقدوس آزاد کاایک یادگار انٹرویو

abdulqadoos azad ex principal RPDC Haripur, ex EDEO Haripur
ex principal RPDC Haripur Abdulqaddoos azab interview with sarfraz tareen for taleemnama urdu website

متاز ماہر تعلیم عبدالقدوس آزاد سے سرفراز ترین کی ملاقات کا احوال

ممتاز ماہر تعلیم عبدالقدوس آزاد کی شخصیت ہری پور کے سیاسی وسماجی اور اساتذہ حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں اگر بطور معلم اپنے شاگردوں کے لیے آئیڈیل اور اساتذہ کے لیے قابل تقلید مثال رہے تو بطور ای ڈی او اپنی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں ، دیانت اور امانت کی بدولت ایک تاریخ رقم کرگئے بطور پرنسپل وہ تعلیمی ادارو ں کے دیگر سربراہان کے لیے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں یہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگا کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں،ملازمت کے آخری دورمیں محکمہ تعلیم کے اعلٰی ترین گریڈبی پی ایس 20میں ترقی پاکر اپنی مادر علمی ایلیمنٹری کالج ہری پور (ریجنل انسٹیوٹ آف پروفیشنل ڈویلپمنٹ)میں بطور پرنسپل تعینات ہوئے اور اسی ادارے سے اپنی مدت ملازمت کی تکمیل پر سبکدوش بھی ہوگئے ۔ کچھ عرصہ قبل ان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے دوران ان کے حالات زندگی اور پیشہ وارانہ امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی لیکن تشنگی پھر بھی برقرار رہی وقت تنگی داماں کی شکایت کررہا تھا لہذا اجازت لیکر رخصت ہوا

ممتازماہرتعلیم سابق ایگزیکٹوڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر،سابق پرنسپل آرپی ڈی سی ہری پور عبدالقدوس صاحب کی کہانی ان کی زبانی پیش خدمت ہے (انٹرویونگارحافظ سرفراز خان

میں 26ستمبر1962کو گاؤ ں انورہ میں پیداہواوالد محتر م مولانا محمد یوسف ایک مذہبی سکالر تھے اور جامع مسجد انورہ میں امام وخطیب کے فرائض سرانجام دیتے تھے ہم کل آٹھ بھائی ہیں دو کو چھوڑ کر سب بھائی پیشہ معلمی (پرائمری ٹیچر سے کالج اساتذہ تک )سے وابستہ ہیں زمانہ طالب علمی میں مختلف ادوار سے گزرنا پڑتا ہے پرائمری تعلیم گاؤں کے اکلوتے پرائمری سکول انورہ میں حاصل کی ہمارے سامنے ایک ہی ٹیچر کی شخصیت رہی جس کے ذمے پانچ کلاسیں پڑھاناہوتاتھا محمد عمر صاحب انتہائی محنتی اور کشادہ دل ٹیچر تھے ہر کلاس کو کورس مکمل کروانا اور بچوں کی طرف سے بھرپور رسپانس کامیاب معلم کی علامت ہے جہاں تک مجھے یادپڑتا ہے پانچ سالوں میں انھوں نے بمشکل ایک آدھ چھٹی ہی کی ہوگی میں پابندی وقت ، محنت اور حسن اخلاق کی خوبیاں ان سے سیکھیں پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعد مڈل سکول لالو گلی میں داخلہ لیا اسی دوران تربیلہ ڈیم کی وجہ سے ہمیں اپنے آبائی علاقہ سے نقل مکانی کرنا پڑی او ردیگر متاثرین تربیلہ ڈیم کی طرح ہم بھی کھلابٹ ٹاؤن شپ میں آکر آبادہوگئے اس ہجر ت نے ہماری آئندہ نسلوں پر گہرے اثرات مرتب کیے اس بستی میں ہمیں نسبتاًبہتر تعلیمی سہولیات میسر آئیں کھلابٹ ٹاؤن شپ میں اس وقت صرف ایک ہی بڑا ہائی سکول تھا یعنی گورنمنٹ ہائی سکول تربیلہ جو کہ اپنے اند ر ایک عظیم تاریخ سموئے ہوئے ہے اس سکول میں ششم جاری سے تعلیم کا ادھورا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا مذکورہ سکول میں ملک دوست محمد مرحوم ، محمد شریف خان، حافظ حسین احمد صاحب اور محمد یمین صاحب جیسے مثالی اساتذہ نے میری شخصیت پر گہر ے اثرات مرتب کیے

چونکہ میرے خاندان کے ذیادہ تر لوگ درس وتدریس کے شعبے سے منسلک تھے گھر میں ہروقت پڑھنے پڑھانے اور مطالعے کارجحان عام تھا اس لیے فطرتی طور پر میری رغبت بھی اس طرف پیداہوگئی میٹرک کے بعد 1979-80میں میرے بڑے بھائی پروفیسر محمد وارث صاحب نے مجھے پی ٹی سی کورس کے لیے ٹیچرز ٹریننگ سکول ہری پور میں داخل کروادیااس زمانے میں اساتذہ کی تر بیت کے لیے قائم اداروں میں زیر تربیت طلبہ کو اقامتی اداروں میں قیام اور ریگولر ٹریننگ ضروری تھی شاید یہی سبب تھا کہ مقامی ہونے کے باوجود سرسید ہاسٹل یا شبلی ہاسٹل میں رہنا لازمی تھا اس وقت پچہتر روپے ماہوار ہر ٹرینی کو معاوضہ ملتا تھا جس سے ہمارے میس کے اخراجات پور ے ہوجاتے تھے اس وقت ممتاز ماہر تعلیم، مذہبی سکالر اور صوفی منش انسان قاضی بشیر الدین مرحوم مذکورہ ادارے کے پرنسپل تھے ان کی معیت میں عتیق الرحما ن صدیقی مرحوم ،پروفیسر محمد دین ، فزیکل انسٹرکٹر محمد اصغراور قاضی بیدار صاحب جیسی کرشماتی شخصیات تھیں جنھوں نے دوران تربیت ہی ہمارے ذہنوں کو ہمیشہ کے لیے پیشہ معلمی سے وابستگی کے لیے تیار کردیا یہ ان ہی ہستیوں کی تربیت او رمحنتوں کا نتیجہ ہے کہ آج تک خوشی اور اطمینان قلب کے ساتھ تدریس کے شعبے سے منسلک ہوں اساتذہ نے ہمیں کہا کہ دیہات کے لوگ باالخصوص خواتین آپ سے خط وغیرہ لکھوانے کے لیے آئیں گی آپ نے اپنے مقام اور مرتبے کا خیال کرنا ہے تاکہ پیشہ معلمی پر کوئی حرف نہ آئے میں پوری کوشش کی کہ ان کی نصیحت پر من و عن عمل کروں یہی وجہ ہے کہ بدھوڑہ ، کرپلیاں اور کھبل جیسے دوردرا ز مقامات پر نوکری کے دوران بھی صرف اور صرف اپنے فرائض منصبی پر توجہ دی ۔

1990-92میں ایم ایڈکی ٹریننگ کے لیے جامعہ پنجاب میں داخلہ لیا جہاں پر ڈاکٹر خوشی محمد،ڈاکٹر حبیب احمد ، ڈاکٹر عبدالخالق،ڈاکٹر مشتاق احمداور ڈاکٹر منور ابن صادق جیسی نامور علمی شخصیات نے ہمارے ذہنوں کو مزید جلابخشی ۔

میٹرک کرکے ٹریننگ کے بعد پرائمری ٹیچربھرتی ہوگیا تھااس کے بعد میں نے اپنی ساری تعلیم ایف اے ، بی اے،ایم اے ہسٹری،ایم اے پولیٹیکل سائنس،ایم اے اسلامیات پرائیویٹ طور پر کی ایم فل ایجوکیشن بھی تکمیل کے مراحل میں ہے

اس زمانے میں ٹریننگ کے فورًا بعد ملازمت مل جایاکرتی تھی یہی وجہ ہے کہ تیس ستمبر کو ہمارا کورس مکمل ہوااور یکم اکتوبر 1980سے گورنمنٹ پرائمری سکول بدھوڑہ میں بطور پی ٹی سی ٹیچر تقرری بھی ہوگئی تیرہ سال تک پی ٹی سی پوسٹ پر کام کرنے کا موقع ملا1993چونکہ ہم نے ایک ٹیچر سے پانچ کلاسز پڑھی تھیں لہذا اسی تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بطور پرائمری ٹیچر گروپ میتھڈ کے تحت اکیلا پانچ کلاسز کو پڑھاتا رہا ۔میں سی ٹی پوسٹ پر گورنمنٹ مڈل سکول کھبل میں تقرری ہوگئی بطور سی ٹی پانچ سال تک کھبل،کرپلیاں ،ہائی سکول نمبر1اور ہائی سکول سیکٹرنمبر2کھلابٹ میں فرائض کی ادائیگی کا موقع ملا1998میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ایس ایس ٹی پوسٹ پر پروموشن ہوگئی بطور ایس ایس ٹی گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ نجیب اللہ اور گورنمنٹ ہائی سکول سیکٹر نمبر2کھلابٹ میں کام کیا اور پھرچار سال بعد ہی 2002میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پرنسپل (بی پی ایس 18)کی پوسٹ پر سلیکشن ہوگئی بطورپرنسپل پہلی تعیناتی گورنمنٹ ہائی سکول آلولی میں ہوئی چونکہ اس وقت اس سکول میں سٹاف کم تھا اس لیے میں بذات خود ہفتہ وار 38پیریڈلگاتارہا ہوں اس کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول سیکٹرنمبر2اور گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 4کھلابٹ میں بطور پرنسپل تعینات رہا بلکہ ابھی بھی ادھر ہی کام کررہا ہوں

جب میں نے بطور ای ڈی او تعیناتی اور پھر کچھ ہی ماہ بعد واپسی کے بارے استفسار کیا تو کہنے لگے کہ میں اپنی خواہش پر ای ڈی او نہیں لگابلکہ مجھے اس وقت کے حالات میں موزوں تصور کرکے ای ڈی او ایجوکیشن لگایا گیا تاہم یہ بات درست ہے کہ ساڑھے نو ماہ بعد ہی میں اپنی مرضی سے ای ڈی او شپ چھوڑ کر واپس پرنسپل کی پوسٹ پر آگیاکیونکہ میں اس سسٹم میں اپنے آپ کو un fit محسوس کررہا تھا ۔

انتظامی پوسٹوں پر مختلف اطراف سے دباؤ آنا دفتری زندگی کا لازمی حصہ ہوتاہے ایسے میں عوامی نمائندوں اور افسران بالا کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ انصاف او رقانون کا رستہ اختیار کرنا ہی کمال ہوتا ہے جو افسران ان پوسٹو ں پر آکر اپنے دامن کو بچا لیتے ہیں وہ نہ صرف عوام کے سامنے سرخرو ہوتے ہیں بلکہ اللہ کے ہاں بھی کامیاب قرار پاتے ہیں انتظامی پوسٹوں پر بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے انسان کی ذاتی زندگی بڑی متاثر ہوتی ہے

جب میں نے پوچھا کہ اپنے وقت اور اس وقت کے مدرسین میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں تو کہنے لگے کہ اس کو میں وقت کے ساتھ معاشرتی ، سیاسی او رجغرافیائی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھتاہوں دنیاکا ماحول تہذیبوں کے سفر سے گزرکر اپنی انتہا کی طرف بڑھ رہا ہے انقلاب رحمت اللعٰلمین کے نتیجے میں ایک مذہبی ثقافتی معاشرہ وجود میں آیا جس طرز معاشرت اللہ کا قرآن اور نبی کریم ﷺکی سنت تھا پھر رفتہ رفتہ زرعی سوسائٹی وجود میں آئی جو یورپین اقوام کی نشاۃ ثانیہ کا نتیجہ تھی اور یہیں سے صنعتی سوسائٹی کا آغازہوتا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی عروج کی طرف بڑھنے لگتی ہے جس کے نتیجے میں معاشرت میں مادیت کا عنصر غالب آنے لگتاہے یہ ساری تبدیلیاں معاشرے کی مذہبی ، اخلاقی اور تعلیمی اقدار کو بھی تبدیل کرکے رکھ دیتی ہیں ہمارے دور میں بچوں کی روحانی و اخلاقی تربیت اور کردار سازی اساتذہ کی اولین ترجیح تھی جبکہ اب صرف تعلیم کو تجارت اور فکر معاش بنا دیا گیا ہے امتحانات میں زیادہ سے زیادہ نمبروں کے حصول کی دوڑ ہے اسی لیے بچو ں کو کتابیں رٹائی جارہی ہیں بچے ، والدین اور اساتذہ صرف ایک مقصد کے لیے کام کررہے ہیں زیادہ نمبروں کے ذیعے اعلٰی تعلیم کا حصول نوکری ، اعلٰی معیار زندگی مل جائے لیکن کردار سازی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی یہی وجہ ہے ہمارا نظام تعلیم اچھے مسلمان اور محب وطن پاکستانی نہیں پیداکرپارہا ۔

میں نے پوچھا آج کے استاد کو کیا پیغام دینا چاہیں گے تو فرمانے لگے میں نے پرائمری ٹیچر کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور آج بھی اپنے آپ کو معلم کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہوں معلم اپنی حیثیت اور اہمیت کو پہچانے کہ وہ پیشہ پیغمبری سے منسلک ہے اپنی اصلاح نفس اور بچوں کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ اولین ترجیح ہونی چاہیے پوری تندہی ،لگن اور دیانتداری سے اپنے فرائض منصبی اداکریں مطالعہ کی عادت اپنائیں مزید تعلیم کاسلسلہ جاری رکھیں صلے کی امید صرف اللہ کریم سے رکھیں حکومت کی طرف سے جو مراعات دی جارہی ہیں ان پرقانع رہیں اللہ کریم اسی تنخواہ میں برکت دے گا۔

یوٹیوب انٹرویو: عبد القدوس آزاد صاحب (ریٹائرڈ پرنسپل RPDC ہری پور)

ریٹائرہیڈماسٹراور ممتاز کالم نگار محمد آصف خان عبدالقدوس آزاد کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ

چار دہائیاں مدت ملازمت پوری کر کے 24 ستمبر 2022 کو اپنی خدمات سبکدوش ہوئے. آپ نے پرائمری سکول ٹیچرز سے سروس کا آغاز کیا اور پرنسپل (گریڈ 20) گورنمنٹ ایلیمنٹری ٹیچرز کالج (RPDC) ہری پور سے ریٹائرمنٹ لی. یاد رہے آپ نے اسی ادرہ سے پرائمری ٹیچنگ سرٹیفیکیٹ کیا. اسی بنیاد پر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا.

ویسے تو بچپن سے ہمارا تعارف تھا ایک ہی سکول میں ایک/دو کلاسیں آگے پیچھے تربیلہ ٹاؤن شپ میں پڑھا. آپ بھی تربیلین ہیں. آپ کی شخصیت ایک بہترین استاد اور مربی کی حیثیت سے جانی جاتی ہے. نہ صرف آپ انتہائی محنتی مدرس بلکہ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وسیع النظر عالم دین بھی ہیں.

آپ نصاب پر گہری نظر اور “کمانڈ” رکھتے ہیں. گزشتہ دو دہائیوں سے نصاب میں “ڈنڈی” ماری جارہی ہے. مفت کتب کے بہانے مشرقی اور اسلامی اقدار کو نصابی کتب سے نکالا جارہا ہے. اس تخریف کے خلاف اکثر ہم مل کر تحقیقی کام کرتے رہے ہیں. اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں. اس معاملہ میں آزاد صاحب ہمیں بہت زیادہ رہنمائی ملی.

آپ ملی و قومی جزبہ سے سرشار ہیں، جب بچوں کی وردی ملیشیا یونیفارم کی تبدیلی کی بات آئی، حکومتی اجازت نامہ کہ بلیو/وائیٹ شرٹ اور گرے پینٹ معہ ٹائی وغیرہ یا سفید رنگ کی شلوار قمیض کر دی جائے. عبدالقدوس آزاد اور فردوس خان صاحب نے اپنے اپنے سکولوں کے لیے شلوار قمیض، قومی اور مشرقی لباس کو اپنانے کا فیصلہ کیا جو آج بھی رائج اور قابل صد تحسین ہے.

میں نے اپنے سکول کے لیے مختلف سکولز سے اچھی اچھی پریکٹیسز کی کاپی کی اور اساتذہ کو exposure vist کروائے جسمیں گورنمنٹ ہائی سکول نوردی، تربیلہ ٹاون شپ اور آلولی قابل ذکر ہیں. بزم ادب خصوصاً کلام اقبال رحمت اللہ علیہ ان کے سابقہ سکول سیکٹر نمبر 4، KTS سے سیکھ کر اپنایا بلکہ میں اپنے سکول کے بزم ادب میں شامل بچوں کو اور اساتذہ کو ان کے سکول بھیجتا. آپ بچوں کو کلام اقبال کمال درجے پر تیار کرواتے. اللہ رب العزت ان کا یہ فیض جاری رکھے. جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدنیا و الآخرۃ.

آزاد صاحب سکول آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے. مجھے ان کے ساتھ جنرل سیکریٹری کے طور معاونت کا موقع میسر آیا. ذہے قسمت اس عرصہ میں ایجوکیشن ایکٹ 2017 نافذ ہونے کا شوشا سامنے آیا کہ محکمہ تعلیم کو پرائیویٹ کیا جارہا ہے. دراصل اس ایکٹ کی خطرناک بات یہ تھی کہ محکمہ تعلیم کے ملازمیں کی سول سرونٹ کی حیثیت بدل کر پبلک سرونٹ کی جارہی تھی اور بہت کچھ خرابیاں ہونی تھیں جس میں پنشن کا خاتمہ، سکول بیسڈ ملازمت اور ملازمت سے فارغ کرنا شامل تھا جس کے بعد عدالت سے رجوع کا حق بھی چھننا شامل تھا. تو اس ملازم دشمن ایکٹ کے خلاف ان کی سربراہی میں ہری پور سے تحریک کا آغاز ہوا. تمام ملازمیں کی ایسوسی ایشنز، نہ صرف محکمہ تعلیم بلکہ دیگر تمام محکمے حتیٰ کہ وفاقی محکموں کے نمائندے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 3 ہری پور میں جمع ہوئے. احتجاج کا پروگرام ترتیب دیا گیا. بھرپور احتجاج ہوا. سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دی گئی. احتجاج صوبہ بھر میں پھیلا نتیجہ یہ نکلا کہ KP حکومت نے اس ظالمانہ ایکٹ کو مجبوراً واپس کیا، عمل درآمد نہ ہوا. ہم نے آزاد صاحب کو اس موقع پر انتہائی معاملہ فہم اور ایک نڈر لیڈر پایا.

اس کے بعد محکمہ تعلیم نے اداروں کے لیے کلر سکیم متعارف کی جو مناسب اور بہترین تھی مگر اسی کے اندر محکمانہ سلوگن “العلم نور” بدل کر رنگ برنگا جھنڈا سکولز کے میں گیٹ پر لگانے کے احکامات صادر کر دیے. اور، اس پر سختی سے عمل درآمد کرنے کے لیےڈی ای اوز صاحبان سے روزانہ کی بنیاد پراگرس لی جاتی. ہم سب سربراہان نے یہ بکواس کلر با دل نخواستہ اپنایا. ڈی ای او صاحب ان رنگوں کو justify کر رہے تھے کہ بچوں کے لیے ان رنگوں میں دلچسپی ہو گی اور سکول خوبصورت دکھائی دیں گے وغیرہ. بہر صورت حکم حاکم مرگ مفاجات والی کہانی تھی. کچھ عرصہ بعد علم ہوا کہ یہ تو دین اور ملت کے خلاف سازش ہے یہ انتہائی گند ہے. ہم جنس پرستی(LGBT) کا منحوس سلوگن/جھنڈا، مقدس اداروں پر لگوا دیا گیا جسے ہم نے اتار پھینکا. آزاد صاحب کی معیت میں DEO صاحب کو بتایا تو انھوں نے خاموشی اختیار کر لی. اس گندگی کے خلاف تحریک کا آغاز بھی آزاد صاحب کی سربراہی میں ہوا.

بڑے مزے کی بات یہ ہوئی کہ آزاد صاحب ہری پور میں وہ واحد سربراہ ادارہ تھے جنھوں نے اپنے سکول پر یہ گندے رنگ بالکل نہیں لگائے تھے. یہاں میں آپ کی روحانیت کا قائل ہوا. میں نے پوچھا کہ صدر صاحب آپ نے یہ LGBT کا جھنڈا اپنے سکول پر کیوں نہیں لگایا تھا ؟ کیا آپ کے علم میں تھا کہ یہ ہم جنس پرستوں کا جھنڈا ہے؟ اپنے مخصوص انداز، دھیمے لہجے جواب دیا “ہر گز مجھے علم نہیں تھا مگر میرا دل اس کو قبول نہیں کر رہا تھا کہ اس اسے اپناؤں”

آپ کی شخصیت کے بہت سارے علمی پہلو ہیں جن پر روشنی ڈالی جانی چاہیئے بہر صورت میں نے اپنے تجربات مختصراً تحریر کیئے ہیں.

آزاد صاحب وسیع النظر عالم دین بھی ہیں آپ کو چاہیئے کہ رضا کارانہ طور پر دین اسلام کی خدمت کرتے ہوئے خطبہ جمعہ بھی شروع کریں کیونکہ آپ اتحاد امت اور مشرقی رویات کے داعی ہیں. اللہ تعالیٰ آپ کو نبی اقدس صل اللہ علیہ والہ و اصحابہ و بارک و سلم کے صدقے زندگی میں مزید کامیابیاں عطا فرمائے آمین. َامید واثق ہے کہ آپ علم دوستی اور فیاضی علم جاری رکھیں گے.

Hafiz sarfraz khan tareen with principal RPDC Haripur Abdulqaddoos azab sb
Hafiz sarfraz khan tareen with principal RPDC Haripur Abdulqaddoos azab sb

Raja babu Jahangir, Dr Tariq Mehmood khan and Dr Saifurrehman  with principal RPDC Haripur Abdulqaddoos azab sb
Raja babu Jahangir, Dr Tariq Mehmood khan and Dr Saifurrehman with principal RPDC Haripur Abdulqaddoos azab sb

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *