اداکارہ حمیرااصغر کی کہانی۔۔۔آزادی کی لاش: ایک خودمختار عورت کا المناک انجام

humaira asghar actress death case trending news
humaira asghar actress death case trending news

آزادی کی لاش: ایک خودمختار عورت کا المناک انجام

تحریر: سرفراز ترین | تعلیم نامہ

یہ کوئی افسانہ نہیں… نہ کوئی فلمی سین…
یہ ایک لرزہ خیز حقیقت ہے — جو دروازے کے پیچھے تعفن زدہ خاموشی کی صورت کئی دن تک سسکتی رہی،
جب تک اہل محلہ کو اُس کی بدبو نے جھنجھوڑ نہ دیا۔

ایک بند کمرہ، اکیلی لاش، اور گواہ… صرف دیواریں!
نہ کوئی رشتہ دار، نہ کوئی دوست، نہ کوئی ہمدرد۔
لاش کسی اجنبی کی نہیں تھی،
یہ حمیرا اصغر تھی —
ایک مشہور چہرہ، سوشل میڈیا پر ہزاروں فالوورز،
ایک “آزاد عورت”، جس نے فخر سے کہا تھا:

“مجھے کسی رشتے، کسی مرد، کسی بندھن کی ضرورت نہیں… میں خود ہی کافی ہوں!”

لیکن جب موت آئی، تو کوئی کافی نہ تھا…
نہ باپ کی پناہ، نہ بھائی کا کاندھا، نہ دوست کی آہ۔
پولیس نے جب اس کے والد سے دفنانے کا پوچھا،
تو جواب ملا:

“ہم نے تو بہت پہلے اسے دفنا دیا تھا…”

لاش سڑتی رہی… نوماہ تک۔
ہر گزرتا دن، فخر کی خودمختاری کو بے بسی میں بدلتا رہا،
اور تنہائی اس کے آزادی کے خوابوں پر فاتحہ پڑھتی رہی۔

یہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں،
یہ ایک سوچ کی لاش ہے — وہ سوچ جو فیمینزم کے نام پر عورت کو اُس کے قدرتی اور مقدس رشتوں سے توڑ دیتی ہے۔
جو بیٹی کو باپ کی ڈانٹ میں محبت نہیں دیکھنے دیتی،
جو بہن کو بھائی کی غیرت میں تحفظ محسوس نہیں کرنے دیتی،
جو بیوی کو شوہر کی رفاقت غلامی نظر آتی ہے،
اور ماں بننے کو کمزوری!

“خودمختار بنو” کا نعرہ اتنا گونجا کہ عورت اپنی فطرت سے بھی کٹ گئی۔

کیا واقعی عورت مرد سے آزاد ہو کر خوش رہ سکتی ہے؟
ہزاروں فالورز، لاکھوں لائکس…
لیکن کوئی آنسو بہانے والا نہیں؟
کیا یہی کامیابی ہے؟

آج کے معاشرے میں اگر بیٹی نصیحت سنے تو وہ “رجعت پسند” کہلاتی،
شوہر کی فرمانبرداری کرے تو “بے وقوف”،
اور ماں بنے تو “اپنے کیریئر کا قتل” کرتی ہے۔
جبکہ طلاق لے تو “باہمت”،
رشتے توڑے تو “آزاد خیال”،
اور خود کو “بس خود” سمجھے تو “عقلمند”!

لیکن…
جب وہی آزاد خیال عورت بند کمرے میں بے کفن، بے یار و مددگار پڑی ہو،
تو سب آنکھیں جھک جاتی ہیں،
سب لب خاموش ہو جاتے ہیں،
اور فیمینزم کی روشن بتیاں بجھ جاتی ہیں۔

اسلام نے عورت کو کیا دیا؟
ماں بن کر جنت کے دروازے،
بیٹی بن کر رحمت،
بہن بن کر عزت،
بیوی بن کر محبت۔

اسلام کہتا ہے:

“ومن أعرض عن ذکری فإن له معيشةً ضنکاً…”
“اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی”
(القرآن)

آزادی کی تلاش میں اگر عورت اپنے رب، اپنے دین، اور اپنے رشتوں سے بغاوت کرے،
تو انجام وہی ہوتا ہے جو حمیرا اصغر کا ہوا —
سڑتی لاش، بند دروازے، اور خاموش دیواریں!

یہ وقت ہے لمحہ فکریہ کا۔
ہمیں طے کرنا ہوگا:
کیا ہم اپنی بیٹیوں کو ایسی “آزادی” دیں جو انہیں تنہائی اور بربادی کی طرف لے جائے؟
یا وہ تربیت دیں جو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے مقام کو عزت بناتی ہے؟

رک جاؤ… سوچو… لوٹ آؤ۔
آزادی صرف جسم کی نہیں، روح کی بھی ہونی چاہیے — اور وہ صرف رب کی بندگی سے ملتی ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *