
ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر طارق محمود خان سابق ڈائریکٹرڈیپارٹمنٹ آف پروفیشنل ڈویلپمنٹ خیبرپختونخواسے انٹرویو حافظ سرفراز خان
ٓٓٓٓآج میں اپنے قارئین کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے کرواتاہوں جنھوں نے بطور ٹیچر، سربراہ ادارہ، ڈی ای او، اسسٹنٹ پروفیسر ہریپور یونیورسٹی، سیکرٹری و چیئرمین مالاکنڈبورڈ، ممبرٹیکسٹ بک بورڈ،بطورپرنسپل رائٹ اورڈائریکٹرڈیپارٹمنٹ آف پروفیشنل ڈویلپمنٹ خیبرپختونخوااپنی تدریسی، پیشہ وارانہ اور انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا صوبائی حکومت سے بہترین پرنسپل کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں مسلسل سات سال تک ضلعی ٹورنامنٹ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کھیلوں کے فروغ کے لیے اپنی خدمات سرانجام دیں تعلیم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کے حامل ہیں میر ی مراد ڈاکٹر طارق محمود خان ہیں ان سے تعلیمی سفر، سروس کیریئرکے علاوہ شعبہ تعلیم کی موجودہ صورت حال اور اس کی بہتری کے لیے تجاویز،ان کے دورطالبعلمی اور دورملازمت کے دلچسپ واقعات کے حوالے سے گفتگوکی جو کہ سوالاًجواباًقارئین کی خدمت میں پیش کرتاہوں
س: آپ کب اور کہاں پیداہوئے؟
ج: میرا تعلق تربیلہ کے ایک گاؤں ”جٹو“ سے ہے اور میں نومبر 1961ء میں پیدا ہوا۔ یہ گاؤں تربیلہ ڈیم بننے کے بعد زیر آب آچکا ہے۔
س: اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیں۔
ج: تربیلہ میں آباد قبائل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ افغانستان سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔ جن میں سے ایک قبیلہ یوسفزئی ہے، جس سے میرا تعلق ہے۔میرے خاندان میں میرے علاوہ کو ئی فرد ملازمت میں نہیں ہے۔
س: آپ نے تعلیم کہاں تک اور کن اداروں سے حاصل کی؟تفصیل کے ساتھ بتائیں۔
ج: ”تعلیم“ میں پی ایچ ڈی 2011ء میں پریسٹن یونیورسٹی، اسلام آباد سے مکمل کی، ایم فل ”تعلیم“ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے2006ء میں، ایم ایڈ (آئی۔ای۔ آر)جامعہ پنجاب1991ء، بی ایڈ گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن لاہور 1989ء، ایم اے مطالعہ پاکستان1994ء، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، ایم اے اردو 1990ء پنجاب یونیورسٹی، بی اے1986ء پشاور یونیورسٹی، ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجنیئرنگ(ایلیکٹریکل)1981ء، اور میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول تربیلہ ٹاؤن شپ 1978ء میں کی۔
س: کن اساتذہ سے ذیادہ متاثر ہوئے اور متاثر ہونے کی وجہ کیاتھی؟
ج: یہ کہنا ذرا مشکل محسوس ہوتا ہے کہ انسان اپنے طویل تعلیمی کیریئر سے کسی اپنے استاد کا نام لے سکے جس سے وہ زیادہ متاثر (Inspire)ہوا ہو۔تاہم سیکنڈری سکول کی سطح تک جن اساتذہ کے طریقہ تعلیم، کرداراوررویووں نے متاثر کیا ان میں سے محمد یامین صاحب، محمد الیاس صاحب، محمد ادریس صاحب، عبدالحمید صاحب، شیر احمد صاحب اور ملک دوست محمدصاحب ہیڈماسٹر شامل ہیں۔جبکہ بعدازاں کالج آف ایجوکیشن لاہورمیں پروفیسر اخترا لحسن بھٹی صاحب، غلام مصطفٰی خان صاحب اساتذہ میں قابل ذکر ہیں۔ جامعہ پنجاب میں ڈاکٹر محمد اشرف صاحب، ڈاکٹر شہباز خان صاحب، ڈاکٹرابراہیم خالدصاحب اور ڈاکٹر مشتاق الرحمٰن صدیقی صاحب شامل ہیں۔ایم فل اور پی ایچ ڈی میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم اصغرصاحب، ڈاکٹر معراج الدین بھٹی صاحب اور پروفیسر ڈاکٹرمحمد رشیدصاحب کی خصوصی راہنمائی سے یہ مدارج طے کرنے میں کامیابی ملی۔
س: دور طالب علمی کا کوئی یادگار واقعہ ہوتو؟
ج: سال1977ء کو قائداعظم سکاؤٹ جمہوری منعقدہ لاہورمیں ہمارے سکول نے بھی شرکت کی۔میں بھی گورنمنٹ ہائی سکول تربیلہ ٹاؤن شپ کے سکاؤٹ دستے میں شامل تھا۔ اور سکول کے ٹیچر عبدالحمید صاحب اور ہیڈماسٹر ملک دوست محمد صاحب ہمراہ تھے۔ سفر بذریعہ ریل تھا۔ روانگی کے وقت ہیڈماسٹر صاحب نے اپنا سامان سے بھر ا صندوق میرے حوالے کیا اور ہدایت کی کہ اس کا خیال رکھنا ہے۔ بچگانہ خیال سے صندوق کو کسی جگہ چھوڑ کر ہم اپنی موج مستی میں لگ گئے۔ کچھ وقت کے بعد جب ہیڈسٹر صاحب نے مجھے صندوق لا نے کو کہا تو مجھے نہیں مل رہا تھا۔بڑی مشکل سے جب مل گیا تو ہیڈماسٹر صاحب نے بہت غصہ کیا اور کہا کہ”اب اس صندوق کو تم اپنے سرپر رکھ کر لاہور تک جاؤ گے یہ تمہاری سزا ہے۔“ یہ لمحا ت میرے لئے بہت زیادہ پریشان کُن تھے۔ تاہم کچھ دیر بعد ہیڈماسٹر صاحب نے کہا کہ اب صندوق سر سے نیچے اتار دو اور اب کی بار خیال رکھنا۔
س: اپنے اساتذہ اور آج کل کے اساتذہ میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ج: ہمار ے وقت اور آج کے اساتذہ کا بنظر غور جائزہ لیا جائے تو بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاََ اس وقت کے اساتذہ کی تعداد کم ہوتی تھی، تعلیم کی بڑی بڑی ڈگریاں بھی آج کی طرح نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی ان کے پاس آج کی طرح بہتر پے سکیل تھے لیکن اس کے باوجود وہ اساتذہ اپنی ذمہ داریاں بحیثیت مدرس پوری لگن، شوق اور دیانتداری سے بجا لاتے تھے۔ اپنے کردار کے لحاظ سے بلند ہوا کرتے تھے اور اپنے مضمون کو پوری تیاری اور مہارت سے بچوں کو پڑھاتے تھے۔ڈیوٹی کی بجا آوری میں کوتاہی اور تساہل سے کام نہیں لیتے تھے۔
س: محکمہ تعلیم میں ہی ملازمت کیوں اختیار کی؟ حادثہ۔۔ضرورت یا شوق؟
ج: محکمہ تعلیم میں ملازمت میں نے اپنے”شوق“کو مد نظر رکھتے ہوئے اختیار کی۔یہا ں یہ بات میں بتاتا چلوں کہ جب مجھے کالج سے چھٹیاں ملتی تھیں تو اس دوران میں اپنے کھلابٹ ٹاؤن شپ سیکٹرنمبر ۱کے پرائمری سکول جہاں فقیر محمدصاحب ہیڈ ٹیچر ہوا کرتے تھے وہاں جماعت پنجم کو اعزازی طور پر پڑھانے چلا جایا کرتا تھا۔اور اس سے مجھے بڑی خوشی محسوس ہوتی تھی۔
س: کس حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا اور کن کن پوسٹوں پر کن کن سکولوں اور اداروں میں کام کیا؟تفصیل سے بتائیں۔
ج: ملازمت کا آغاز میں نے بحیثیت AWI(اے، ڈبلیو،آئی)گریڈ 09-سے ڈی۔اے۔ای کی بنیاد پرجون 1986ء میں گورنمنٹ ہائی سکول سیکٹر نمبر 4-کھلابٹ ٹاؤن شپ سے کیا۔اسی پوسٹ پر مجھے گورنمنٹ ہائی سکول غازی، نگری ٹوٹیال اور بگڑہ میں رہنے کا اتفاق ہوا۔مئی 1995ء کو SETکی پوسٹ پر تعیناتی گورنمنٹ ہائی سکول باغ پور ڈھیری میں ہوئی اور جلد ہی میرا تبادلہ گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول تربیلہ ٹاؤن شپ میں ہو گیا جہاں سے میری ترقی /تعیناتیفروری1999ء میں بذریعہ پبلک سروس کمیشن بحیثیت ہیڈماسٹر(BS-17) گورنمنٹ ہائی سکول بیل ہری پور ہوئی، اس سکول سیتبادلہ گورنمنٹ ہائی سکول سیکٹر نمبر3کھلابٹ ٹاؤن شپ ہری پورمیں ہوا۔جہاں سے اکتوبر2000ء میں بذریعہ پبلک سروس کمیشن تقرری بحیثیت پرنسپل(BS-18)گورنمنٹ ہائی سکول چمہڈضلع ایبٹ آباد ہوئی۔اس سٹیشن سے تقریباََ سواسال بعدمیرا تبادلہ اپنے ضلع کے گورنمنٹ ہائی سکول کاہل میں ہوا۔
کاہل سکول سے میری تعیناتی 2002ء میں بحیثیت ڈسٹرکٹ آفیسر پرائمری ہری پور ہوئی۔کچھ ہی عرصہ بعد یہ پوسٹ جینڈروائز (Gender-wise) ہونے کے وجہ سے یہاں پر ایک خاتون آفیسر کا تقرر ہونے پر میری دوبارہ تعیناتی گورنمنٹ ہائی سکول کاہل میں ہو گئی۔فروری2004ء میں بحیثیت ڈسٹرکٹ آفیسر(مردانہ) ہری پورتعیناتی ہوئی۔ جہاں پر میں 10جولائی 2006ء تک فرائض انجا م دیتا رہا۔اور BS-19میں ترقی پانے پراپنے مادر علمی گورنمنٹ ہائی سکول تربیلہ ٹاؤ ن شپ(کھلابٹ ٹاؤن شپ) میں تعیناتی ہوئی۔ اپریل 2010ء میں سیکریٹری تعلیم کی خصوصی سفارشات پر بنوولینٹ پبلک سکول اینڈ کالج پشاورمیں ڈیپوٹییشن پر تعینات کیا گیا۔ایک سال کا عرصہ گزارنے کے بعد 2011ء دوبارہ تعیناتی گورنمنٹ سیٹینیئل ماڈل ہائی سکول تربیلہ ٹاؤ ن شپ میں ہوئی۔ایک بار پھر 2012ء میں یہاں سے یونیورسٹی آ ف ہری پور میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر (ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن)میں ایک سال کے لئے ڈیپوٹییشن پر تعیناتی ہوئی۔ازاں بعد ایک بار پھر تعیناتی گورنمنٹ سیٹینیئل ماڈل ہائی سکول تربیلہ ٹاؤ ن شپ میں ہوئی۔جون 2014ء میں سیکرٹری بورڈ انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن مالاکنڈ میں ڈیپوٹییشن پر تین سال کے لئے تقرری کی گئی۔جہاں سے 2017ء میں بحیثیت ممبر کے پی ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور میں ڈیپوٹییشن پر تعینات کیا گیا۔اور6 نومبر2018کو گریڈ20میں ترقی ملنے پر ریجنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیچر ایجوکیشن (مردانہ) ہری پور میں تعینات کیا گیا۔جہاں پر تاحال اپنے فرائض منصبی انجام دیے جارہا ہوں۔
س: آ پ کو مختلف انتظامی پوسٹوں پر کام کرنے کا موقع ملا اس بارے میں کچھ تفصیل بتائیں۔
ج: انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے دوران ملازمت انتظامی پوسٹوں پر کام کرنے کا موقع ملے۔ الحمداللّہ مجھے دوبار بحیثیت ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ بورڈ انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن مالاکنڈ میں بحیثیت سیکرٹری اور ایک سال تک بحیثیت چیئر مین ذمہ داریاں انجام دیں۔ ازاں بعد بحیثیت ممبر ٹیکسٹ بک بورڈ بھی کام کرنے کا موقع ملا۔جہاں جہاں انتظامی پوسٹوں پر تعینات رہا کوشش کی ہے کہ اپنی ذمہ داریاں کما حقہ انجام دے سکوں۔ وہاں پر کام کرنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ وہ اپنا کام شوق اور لگن سے کرنے کے قابل ہوں۔یہ بات بڑی اہم ہے کہ انسان کو مختلف پوسٹوں پرتعینات رہنے سے سیکھنے کاموقع ملتا ہے۔میری خوش قسمتی ہے کہ جہاں مجھے محکمہ تعلیم کے اچھے اور ماہرافسران کے ساتھ کام کرنے اوران سے سیکھنے کے بھرپور مواقع ملے وہاں دوسر ے سول سروس آفیسرز کے ساتھ بھی بہت اچھا تجربہ رہا۔ ان سے وہ کچھ سیکھنے کو ملا جو محکمہ تعلیم میں شاید مشکل سے دستیاب ہوتا۔دوران سروس مختلف قسم کے ٹریننگز(تربیت) نیپا اکیڈمی پشاور، پائیٹ پشاور، اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈمینجمنٹ اسلام آباد، ڈیفڈ اور جی آئی زی وغیرہ میں مواقع میسر بھی آئے۔جس سے تدریسی و انتظامی امور میں پیشہ وارانہ مہارتیں حاصل ہوئیں۔
س: آپ کے خیال میں کسی استاد یا سکول کے سربراہ کو کن صفات سے متصف ہونا چاہیے؟۔
ج: ہمارے پیارے نبی ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ:
”اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمَا“۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے۔
آپ ﷺنے معلم بننا اعزاز قرار دیا ہے۔ لہٰذا ایک مدرس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان صفات کو پہلے سمجھنے کی کوشش کرے اور ازاں بعد ان صفات کو اپنی شخصیت کاحصہ بنائے۔ایک مدرس کی بنیادی خصوصیات میں سے اس کا اچھے اخلاق و کردار کا مالک ہونا،اس میں تعلیم دینے کی لگن اور شوق کا ہونا،نفسِ مضمون پر عبور ہونا اور ہر دن تیاری (Lesson Planning) کے ساتھ کمرہ جماعت میں جاناجدید طریقہ ہائے تدریس سے واقفیت کا بھی ہونا،ہر مضمون کو اس کی ضرورت کے تحت طریقِ تدریس کا اپنا نااور طلباء کو تدریس کا حصہ بنانا شامل ہے۔ان اوصاف سے متصف مدرس ہی بہتر نتائج دے سکتاہے۔
اب سوال کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں جس کا تعلق سربراہ ادارہ یا منتظم سے ہے۔ چونکہ سربراہ ادارہ یا صدر معلم کوایک تعلیمی ادارے کی جملہ ذمہ داریاں انجام دینا ہوتی ہیں۔ اس لئے صدر معلم کو جاذب نظر اور پرکشش ہونے کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا صفات سے متصف ہوناچاہیے یعنی جوخوبیاں ایک معلم میں ہونا چائیں سربراہ ادارہ ان سے متصف ہو اور اس کے علاوہ چونکہ یہ پوسٹ انتظامی بھی ہوتی ہے اس لئے روز مرہ کی خط و کتابت (Official Correspondence)سے واقفیت ہونا،محکمانہ قواعد وضوابط سے آگاہی کاہونا، ادارے کے لئے سازگارتعلیمی ماحول قائم کرنا، ادارے کے مقاصد کے حصول کے لئے ادارے کے افراد (Employees)کو ایک ٹیم بنا کر چلنا، بروقت اور درست فیصلے کرنا(Decision Making)، مالی امور میں شفافیت قائم رکھنا، اخلاق و کردار میں دیگر لوگوں کے لئے مثال ہونا، اپنی ٹیم کے ارکان کی رائے کا احترام کرنا اورادارے کے مفاد میں فیصلے اتفاق رائے سے کرنے کی کوشش کرنا۔اس ضمن میں جمہوری طرز عمل (Democratic Administrive Style)سربراہ ادارہ کو بہتر نتائج دے سکتا ہے۔
س: محکمہ تعلیم میں اساتذہ کو براہ راست بغیر پیشہ وارانہ تعلیم کے بھرتی کیا جارہا ہے آپ کی اس پالیسی کے بارے کیارائے ہے؟
ج: محکمہ تعلیم میں بغیر پیشہ وارانہ تعلیم کے اساتذہ بھرتی کرنا بالکل ایسے ہے جیسے میدان جنگ میں کسی اناڑی کوکوئی بغیر اسلحہ کی تربیت اور بغیر فن حرب کے اتارنا۔ یعنی یا تو وہ اپنے آپ کو نقصان دے گا یا اپنی فوج یا کسی ساتھی سپاہی کو۔یہ مثال کہیں پر دستیاب نہیں ہے کہ ٹیچرز کو قبل از ملازمت تربیت(Pre-service Training) کے بغیر بھرتی کی جائے۔اس وقت جاری Induction Programme کے تحت دوران سروس ایک ماہ میں صرف دو یا تین دن کی تربیت پر اکتفا کیا جاتا ہے جو کہ نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس سکولوں میں موجود زیرِتعلیم طلباء کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور ان کو تربیت دینے والے اساتذہ کی اپنی کلاسز کا حرج بھی ہوتا ہے۔
س: موجودہ تعلیمی انحطاط کا ذمہ دار کون ہے؟معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
ج: تعلیمی پالیسیوں میں مسلسل تبدیلیاں، معیار تعلیم پر مثبت کی بجائے منفی اثرات کا باعث ہیں۔ طلبا ء کو علوم سکھانے سے زیادہ زور انگلش زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر دیا گیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلباء مختلف مضامین کی بنیادی معلومات تک سے محروم رہ گئے، کم ازکم پرائمری تعلیم ہمارے ملک میں مادری زبانوں میں اور اردو میں ہونی چاہیے تھی، تمام تر توجہ تعلیمی مہارتوں پر ہونی چاہیے۔ انگریزیی زبان کو بطور،مضمون پڑھایا جائے۔ نہ کہ ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔
<— تربیت اساتذہ کے روایتی اداروں میں 20/22سال پہلے اساتذہ کی تربیت کے پروگرام بند کرکے یہ ذمہ داری فاصلاتی ذریعہ تعلیم کے اداروں کو دے دی گی جس نے تربیت اساتذہ کے معیار کو کم تر کر دیا لہٰذا گزشتہ دو دہائیوں سے جو اساتذہ نظام تعلیم میں داخل ہوئے ان کی تدریسی صلاحیت اس معیار کی نہیں ہے جو ہونی چائیے۔
,<—پرائمری اور ثانوی سطح پر کلاس سائز کو معیاری بنانے کی ضرورت ہے تاکہ طلباء پر انفرادی توجہ دے کر ان کو مہارتیں مؤثر طریقے سے سکھائی جائیں۔
<—تربیت اساتذہ کا نظام نئے سرے سے مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر تربیت یافتہ اساتذہ کو ملازمت میں لا کر معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی امید، محض خام خیالی ہے۔
تعلیم ایک مقدس پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ نوخیز نسل کی تربیت کا ذریعہ بھی ہے لہٰذا اس سے وابستہ افراد کا کردارمثالی ہونا چاہیے۔ طلباء تعلیمی مہارتوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے کردار اور روّیوں سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ اس لئے استاد کو متحمل مزاج، نرم خُو، نرم گفتار، ملنسار، ہمدرد، خیرخواہ، وقت کا پابند اور صاحب بصیرت ہونا چاہیئے۔
اسے نفس مضمون پر عبور ہو۔لہٰذااساتذہ کو تدریس کے لئے ہمیشہ تیاری کے ساتھ کلاس میں جانا چاہئیے۔ طلباء کو راہنمائی و مشاورت فراہم کرنے کے لئے استاد کا اپنے مضامین پر عبوراور طلباء کے مستقبل کے حوالے سے پیشہ ورانہ معلومات کا حاصل ہونا ضروری ہے۔ باخبر استاد طفلانِ قوم کی بہتر راہنمائی کر کے شخصیت سازی کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے جس سے معاشرے میں بڑی شخصیت اور صفات کے حامل افراد تیار کئے جا سکتے ہیں۔
س: دور ملازمت کا کوئی یادگار واقعہ بتائیں۔
ج: یوں تو سروس کے طویل دورانیے میں کئی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک میری نظر میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی۔ہواکچھ یوں کہ مڈل اسٹینڈرڈامتحان میں میری ڈیوٹی بحیثیت نگرانInvigilator)گورنمنٹ ہائی سکول غازی میں لگی اس وقت میں گورنمنٹ ہائی سکول، سیکٹر نمبر4کھلابٹ ٹاؤن شپ میں تعینات تھا۔ امتحان میں جو موصوف سپرنٹینڈنٹ تھے ان کا تعلق ہری پور شہر سے تھا۔ چھوٹے بچوں کا امتحان تھا جو نہایت سکون سے جاری تھا۔ ایک دن سکول انتظامیہ نے صبح کے وقت امتحانی عملے کے لئے ہال میں چائے بھیجی جو سپرنٹینڈنٹ صاحب کے کمرے میں رکھی گئی۔ مجھے ایک نگران(Invigilator)صاحب نے کہا کہ سپرنٹینڈنٹ صاحب نے آپ کو چائے کے لئے بلایا ہے۔ میں نے جواباََ کہا کہ میرا دل نہیں کرتا آپ لوگ پی لیں۔ دوبارہ نگران(Invigilator)آیا اور پھر اس نے وہی بات کی۔ میں نے پھر جواب دیا کہ میں ناشتہ کر کے آیا ہوں آپ پی لیں۔ معلوم نہیں کہ نگران صاحب نے اپنے پاس سے کوئی اضافہ کرکے میر ا جواب ممتحن اعلیٰ صاحب تک پہنچایا یا ممتحن اعلیٰ صاحب نے خود سے اس بات کو اتنا برامانا کہ مجھے بلاکر کہنے لگے کہ میں آپ کو ڈیوٹی سے فارغ کرتا ہوں۔ اسی سکول کے ہال “B” میں فرزند علی شاہ صاحب (مرحوم) ممتحن اعلیٰ تھے، کو کسی نے اس معاملہ کے متعلق بتادیا۔ وہ فورََا چلے آئے اور معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔لیکن میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ ہیڈماسٹر صاحبان اپنے آپ کو پتہ نہیں کیاسمجھتے ہیں اپنے دل ہی دل میں عہد کیا کہ میں نے تعلیم اتنی حاصل کرنی ہے کہ کم از کم ان لوگوں کے برابر چلاجاؤں۔ اور الحمداللہ، اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے میں نے یہ ٹارگٹ عرصہ پانچ سال میں مکمل کرلیا۔ یوں اس واقع نے ایک طاقت ور محرک (Strong Stimulant)کا کام کیا اور مجھے تعلیمی کیریئر میں اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم برق رفتار سے حاصل کرنے اور ہیڈ ماسٹر پوسٹ تک پہنچنے میں مدد دی۔
س: بطور سابق پر نسپل رائٹ (موجودہ آرپی ڈی سی )اس ادارے کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟اور اس حوالے سے آپ کی کیا تجاویز ہیں۔
ج: ۔لیکن اگر اساتذہ کے جاری پروگرامز مثلاََ Induction Programme for newly appointed NTS Teachers (SSTs, CTs, & PSTs), CPD (Continuous Professional Development for PST Teachers)وغیرہ میں اگر ہمارے اداروں میں
موجود انسٹرکٹر صاحبان سے کام لیا جائے تو ہمارے اداروں کی بقا ممکن نظر آتی ہے۔ ہمارے اداروں میں اقامتی سہولیات اور تدریس سے متعلق لوازمات و معاونات (روایتی وجدید)،IT لیبہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں۔ ان کے استعمال سے متعلق مناسب تربیت یافتہ اور تجربہ کار عملہ بھی دستیاب ہے۔
متفرق معلومات/کارکردگی:
(۱) میرے سات تعلیمی وتحقیقی ریسرچ پیپرز عالمی جرائد میں شائع ہوئےَ
(۲) ریجنل زبانوں سے متعلق منعقدہ ورکشاپش میں 2013ء میں ہندکو کے نصاب کی تیاری میں حصہ لیا۔
(۳) ڈائریکٹر جنرل اکیڈیمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ مینجمنٹ کی جانب سے 2009ء میں تربیت کی تکمیل پر ”بہترین ریسرچ“ پیپر لکھنے پر تعریفی سند عطا کی گئی۔
(۴) سال2006-07ء میں بہترین پرنسپل ایوارڈ”Best Principal Award” صوبہ سرحد حکومت کی جانب سے دیاگیا۔
(۵) سال 2006ء سے 2013ء تک ضلعی سکولز ٹورنامنٹ کی انتظامی کمیٹی کا جنرل سیکریٹری رہا اور بہترین انتظام وانصرام سے ضلع ہری پور میں کھیلوں کے فروغ کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
(۶) سال 2013ء میں صوبائی سکولز ٹورنامنٹ کا کامیاب اور بہترین انعقاد ہری پور میں کیا جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان تھے۔
(۷) سال 2010-11ء میں کھیلوں کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کرنے والی کمیٹی میں، میں بھی بحیثیت ممبر شامل تھا۔
(۸) محکمہ تعلیم کی جانب سے کئی ریکروٹمنٹ کمیٹیوں کی بحیثیت چیئرمین سربراہی کی۔
(۹) صوبہ میں سکاؤٹ فنڈز کی آڈٹ کے سلسلے میں بنائے جانے والی کمیٹیوں میں سے ایک کمیٹی کا مجھے چیئر مین بنایا گیا۔
