
تحریر۔حافظ سرفراز خان
حال ہی میں خیبرپختونخوا میں محکمہ تعلیم کے تحت اساتذہ کی بھرتی کے لیے ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایویلیوایشن ایجنسی (ایٹا) کے زیرِ اہتمام تحریری ٹیسٹوں کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوران کئی امیدوار مختلف برقی آلات (الیکٹرانک ڈیوائسز) کے ذریعے امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ ایٹا کی جانب سے ان امیدواروں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں، جن میں ان کے چہروں اور نقل کے طریقہ کار کو نمایاں طور پر دکھایا گیا۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کئی نے اسے اخلاقی اور قانونی حدود سے تجاوز قرار دیا۔
نقل ایک سنگین جرم، لیکن کیا تصویری تشہیر درست؟
امتحان میں نقل کرنا ایک غیر اخلاقی اور بدنیتی پر مبنی عمل ہے جو نہ صرف نظام تعلیم بلکہ شفاف بھرتی کے عمل کو بھی مشکوک بناتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات ناگزیر ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا نقل کرتے ہوئے کسی فرد کی تصویر کو سوشل میڈیا پر عوامی سطح پر جاری کرنا ایک مناسب، قانونی اور اخلاقی اقدام ہے؟
اخلاقی پہلو: شرمندگی یا اصلاح؟
اخلاقی اعتبار سے کسی بھی فرد کی عزت نفس اور وقار کا تحفظ معاشرے کی بنیادی اقدار میں شامل ہے۔ اگرچہ نقل کرنے والے افراد کی نشاندہی اور ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے، لیکن ان کی تصاویر کو عوامی طور پر پھیلانا نہ صرف ان کی ذات بلکہ ان کے خاندان اور معاشرتی دائرے میں بھی شرمندگی اور بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ یہ عمل انسانی ہمدردی، عزت نفس اور پرائیویسی جیسے بنیادی اخلاقی اصولوں سے متصادم ہے۔ اصلاح کا عمل رسوائی کے ذریعے نہیں بلکہ رہنمائی اور تعلیمی شعور کے ذریعے ہونا چاہیے۔
قانونی پہلو: رازداری اور ڈیجیٹل حقوق کی خلاف ورزی
پاکستان کے آئین اور متعلقہ قوانین کے تحت ہر شہری کو اپنی شناخت، ذاتی معلومات اور تصویر کی رازداری کا حق حاصل ہے۔ خاص طور پر جب فرد کسی جرم میں باقاعدہ قانونی سزا یافتہ نہ ہو، تو اس کی تصویر کو عوامی سطح پر شیئر کرنا غیر قانونی شمار ہو سکتا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن جیسے ادارے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عوامی مقامات پر بھی کسی فرد کی تصویر لینے اور شائع کرنے کے لیے رضامندی (consent) ضروری ہے، خاص طور پر جب وہ تصویر نقصان دہ تناظر میں استعمال ہو رہی ہو۔ ایسے عمل سے متاثرہ افراد ہتک عزت کے مقدمات دائر کرنے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔
اداروں کی ذمہ داری اور شفافیت
ایٹا جیسے ادارے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھرتی کے عمل میں شفافیت، سخت نگرانی اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنائے۔ اگر کوئی امیدوار نقل کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کے خلاف قانونی طریقہ کار اپنایا جانا چاہیے، جیسے کہ ٹیسٹ سے نااہلی، بلیک لسٹ کرنا، یا فوجداری کارروائی، لیکن اس عمل کو میڈیا ٹرائل کی شکل دینا ادارے کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔
متبادل اقدامات کی ضرورت
ایٹا جیسے ادارے کو چاہیے کہ وہ:
نقل کے انسداد کے لیے جدید سیکیورٹی سسٹمز استعمال کرے۔
نگرانی کے دوران ملنے والے ثبوتوں کو قانونی طور پر محفوظ رکھے۔
سوشل میڈیا پر شرمندہ کرنے کے بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کرے۔
عوامی آگاہی کے لیے عمومی سطح پر ویڈیوز یا پوسٹس کے ذریعے نقل کے نقصانات اجاگر کرے، بغیر کسی کی شناخت ظاہر کیے۔
ایٹاٹیچنگ جابز ٹیسٹ کے دوران نقل کرتے ہوئے پکڑے جانے امیدواروں کی تصاویرسوشل میڈیاپر شیئر کرنے پر سوشل میڈیاصارفین کی تنقید
ایک صارف نے لکھا ہے کہ ائین پاکستان اس سلسلہ میں کیا کہتا ہے
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 14 کے تحت ہر شہری کی عزت اور نجی زندگی کا تحفظ بنیادی حق ہے۔ پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 355 کے مطابق کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا جرم ہے۔ خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے سیکشن 18 کے تحت بغیر اجازت کسی فرد کی ذاتی معلومات ظاہر کرنا منع ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق، ملزم کو جرم ثابت ہونے تک بے گناہ تصور کیا جائے گا اور اسے میڈیا یا عوام میں رسوا کرنا غیرقانونی ہے۔ اسی طرح نیشنل ایکشن پلان اور پولیس رولز 1934 (رول 22.48) کے تحت زیرِ حراست یا زیرِ تفتیش افراد کی شناخت بغیر عدالتی اجازت ظاہر کرنا ممنوع ہے.
زاراخان کہتی ہیں کہ بہت غلط بات ہے اگر نقل کرتا ہے تو اس کا پیپر کینسل کر دو لیکن یہ کونسا طریقہ ہے کہ ایک بچے کو پورے دنیا کو دیکھا رہے ہو کہ یہ لڑکا نقل مار رہا ہے اس کی عزت خراب کر رہے ہو اس بچوں کو سمجھا لیتے اور خاوموشی سے اس کو حال سے نکال دیتے پیپر نہیں کرنے دیتے اپنے بچوں کیلے نقل بھی چھوڑتے ہے اور خود رشوت لیتے ہو پورا تعلیمی نظام تم لوگوں نے خراب کیا اور اب بچوں کو دنیا کے سامنے شرمندہ کر رہے ہو
عمیر احمد لکھتے ہیں کہ لوگوں کی پگڑیاں نا اچھالے
*3 سال بعد محکمہ تعلیم نے بھرتی کا اشتہار جاری کیا جس کے انتظار میں صوبہ بھر کے 10 لاکھ سے زائد انتہائی پڑھے لکھے بیروزگار نوجوان بیٹھے ہوئے تھے
چند ہزار نوکریوں کیلئے 10 لاکھ سے زائد مرد و خواتین نوجوانوں نے ٹیسٹ کیلئے درخواست دی
ملک میں بیروزگاری کی شرح اس قدر شدید ہے کہ نوجوان کسی بھی صورت نوکری حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں
ایسے میں کچھ نوجوان یوم ایف ایم کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں جس پر قانونی طور پر دفع 419 اور 420 بنتی ہے لیکن ایٹا کی جانب سے موبائل فون لے کر جانے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی ہیں
*اگر کوئی لڑکا یا لڑکی معاشرے کے طنز و تمسخر خودکشی کرلے تو ذمہ دار کون۔۔۔۔پختون معاشرے میں جس لڑکی کی تصویر وائرل ہو جاۓ تو اس سے کوئی شادی نہیں کرتا ہے*
*قانون کے مطابق پولیس قاتل ، منشیات فروش ، اغواہ کار کو بھی موقع پر پکڑ کر اس کی تصویر وائرل نہیں کر سکتی ہے اس کو ملزم قرار دیا جاتا ہے جب تک عدالت اس کو سزا نا سنا دے تب تک اس کو مجرم بھی نہیں لکھا جا سکتا ہے*
*پھر کس قانون کے تحت ETEA آئے روز نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تصویریں وائرل کرتا ہے اگر کسی نے ٹیسٹ پاس کرنے کیلئے غیر قانونی راستہ اپنایا ہے تو اس کو بطور سزا نااہل کر دیا جائے*
*تصاویر وائرل کرنے کا کسی بھی ادارے کے پاس اختیار نہیں ہے*
ہم وزیر اعلی ، وزیر تعلیم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ ETEA کو اس مکروہ اور اوچھی حرکت سے منع کیا جائے*
اگر وائرل ہونے والی تصاویر میں سے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی نے خودکشی کی تو قتل کا ذمہ دارایٹا کا ادارہ ہو گا*
شاہ خالد لکھتے ہیں کہ امتحانی ہال میں کسی بھی صورت میں نقل کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ میں ایٹا کے ادارے کو یہ بات واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ گیٹ پر کھڑے ہو کر لوگوں کی تلاشی لیتے ہیں اور امتحانی ہال میں داخلے سے پہلے ان کا مکمل جائزہ لیتے ہیں، تو یہ ایک بہتر عمل ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، امیدواروں کو پہلے سے ہدایت جاری کی جائے کہ موبائل فون، بلوٹوتھ ڈیوائس یا کوئی اور ممنوعہ چیز اپنے ساتھ لانا سختی سے منع ہے، تاکہ کسی قسم کی بدانتظامی نہ ہو۔
تاہم، آپ نے حالیہ واقعے میں جن امیدواروں کی ذاتی اشیاء ضبط کیں، ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کر کے ان کی ذاتی زندگی کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق (Fundamental Rights) کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ آپ کو کسی بھی فرد کی اجازت کے بغیر اس کی تصویر عام کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
یہ رویہ قانونی طور پر بھی غلط ہے اور اس پر آپ کے ادارے کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی متاثرہ فرد عدالت سے رجوع کرے تو وہ آپ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا مکمل حق رکھتا ہے۔ ایٹا کا کام صرف امتحان لینا اور نظم و ضبط قائم رکھنا ہے، نہ کہ لوگوں کی نجی تصاویر کو عام کرنا۔
آپ کو چاہیے تھا کہ جس امیدوار کے پاس ممنوعہ چیز برآمد ہوتی، اس کے خلاف آپ اپنی پہلے سے طے شدہ ہدایات کے مطابق کارروائی کرتے، لیکن بغیر اجازت ان کی تصاویر پبلک کرنا سراسر غلط اقدام ہے۔
لہٰذا، ادارے کو آئندہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔
قانون اور اخلاق کے درمیان توازن ضروری ہے
بہرحال نقل ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے، لیکن اس کے تدارک میں بھی اخلاقی حدود اور قانونی دائرہ کار کی پاسداری لازم ہے۔ اداروں کو چاہئے کہ وہ قانون کی بالادستی، انسانی عزت نفس اور بنیادی حقوق کو مقدم رکھیں۔ اصلاح کی راہیں شرمندگی کے بجائے شعور اور تعلیم سے ہموار کی جا سکتی ہیں
ایٹا #نقل #امتحانمیںنقل #خیبرپختونخوا #ٹیچرز_ٹیسٹ #ETA #ExamCheating #KPK #TeacherRecruitment #SocialMediaEthics #LegalIssues #تعلیم #EducationNews #PakEducation #AcademicIntegrity