پرنسپل پیس سکول اینڈ کالج خالد خان جدون کا خصوصی انٹرویو

Khalid khan Jadoon Principal PEACE school and collage Haripur interview with taleemnama urud website
Khalid khan Jadoon Principal PEACE school and collage Haripur interview with taleemnama urud website

*:ذاتی و تعلیمی پس منظر

آپ کی ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کہاں سے ہوئی؟

ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ۱ ہری پور سے حاصل کی ، جب کے اردو میں ماسٹرز گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ایبٹ آباد سے، اسلامیات میں ماسٹرز  اور سی ٹی پشاور یونیورسٹی ، ایم ایڈ  (ال خیریونیورسٹی ) راولپنڈی سے کیا ۔

تعلیم کے شعبے میں آنے کا کیا محرک تھا؟

میں عملی زندگی میں کاروبار سے لے کر سیاست کے شعبے تک منسلک رہا ، مگر بعد میں احساس ہوا  معاشرے کی تبدیلی اور بہتری کے لیے تعلیم کے شعبے کا انتحاب کیا ۔

کیا آپ کو بچپن سے ہی تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کا شوق تھا؟

بالکل نہیں ۔لیکن جب سے اس شعبے کے ساتھ منسلک ہوا پوری ایمانداری کے ساتھ کام کیا ۔

 *:اسکول کے قیام اور مقاصد

آپ کے اسکول کی سب سے نمایاں خصوصیت کیا ہے؟

الحمداللہ ہمارا ادارہ صوبے بھر میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ، ہمارے طلبا  تقریباً ہر سال ایبٹ آباد بورڈ میں  پوزیشن حاصل کرتےہیں ، اس کے علاوہ کھیل کے میدان میں بھی ڈویژنل سطح کے محتلف مقابلے جیت چکے ہیں ۔ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی ہمارے طلبہ اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔ ہمارے سٹوڈنٹس انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اور امریکہ ، انگلینڈ اور آسٹریلیا میں جا کر میڈلز جیت چکے ہیں ۔

آپ کا اسکول کس تعلیمی نظام یا نصاب کو فالو کرتا ہے؟

ہمارا تعلیمی ادارہ ایبٹ آباد بورڈ کے ساتھ منسلک ہے اور خیبر پختون خواہ ٹیکسٹ بک بورڈ کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے

پرائیویٹ اسکولز پر عمومی تنقید ہوتی ہے کہ وہ کاروباری ادارے بن چکے ہیں، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

کاروبار کرنا کوئی بُری بات نہیں ، مگر نیت اگر ملک و قوم کی اصلاح کی ہو تو یہ ایک عبادت کا درجہ رکھتا ہے ۔ انسان جب محنت کرتا ہے اور خلوص نیت کے ساتھ اس شعبہ کا انتحاب کرتا ہے تو اللّٰہ بھی اُس کو صلہ دیتا ہے ۔ پیسہ باۓ پروڈکٹ ہے ، انسان محنت کرے تو پیسہ خود آ جاتا ہے۔ پیسے کمانے کے ساتھ ساتھ خدمت کا جذبہ ہو تو مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔

 *:چیلنجز اور کامیابیاں

ایک پرائیویٹ اسکول چلانے میں آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

یہ بڑی چیلنجنگ جاب ہے ، یوں کہہ لیں کہ یہ ایک ،سو میٹر ریس ہے ،اس میں ذرا سی سستییا لا پروائی لوگوں کو دوسری آپشنز کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے ، ہر وقت امپرومنٹ اور ایڈوانسمنٹ کی طرف سوچنا پڑتا ہے ۔ یہ کافی ٹف جاب ہے ۔

کیا کبھی ایسا وقت آیا کہ آپ کو لگا کہ اسکول بند کرنا پڑے گا؟ اگر ہاں، تو آپ نے اس چیلنج سے کیسے نمٹا؟

کبھی بھی نہیں ، میرا ایمان ہے کہ انسان محنت ، اخلاص اور ایمانداری کے ساتھ کام کرے تو کبھی ناکام نہیں ہوتا ، میں وہ خوش قسمت انسان ہوں جس نے جہاں بھی تعلیم کے شعبے میں جاب کی وہ ادارہ کامیابی اور کامرانی کی نئی منزلیں طے کرتا چلا گیا ۔

آپ کے اسکول کی سب سے بڑی کامیابی کیا رہی ہے؟

جیسا کے میں نے اپنے ادارے کی کافی نمایاں خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑی کامیابییہ ہے کہ ہم اپنے سٹوڈنٹس کی تربیت پہ کام کرتے ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ۔الحمداللہ طلبا کی تحلیقی صلاحیتوں کو بھی اُجاگر کیا جاتا ہے

اسکول میں داخلوں کے رجحان کو بہتر بنانے کے لیے آپ کون سی حکمت عملی اپناتے ہیں؟اس کا تعلق کسی بھی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا  کی کارکردگی پر ہوتا ہے ، آپ کے سٹوڈنٹس ہی آپ کی مارکیٹنگ کرتے ہیں ، اگر اپنے سٹوڈنٹس پہ محنت کی جائے تو ایڈمیشن حاصل کرنا مشکل نہیں ۔ ہم اپنے سٹوڈنٹس کو اتنا قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ  اور اُن کے والدین ہماری مارکیٹنگ کرتے ہیں ۔

 *:اساتذہ اور طلبہ کے حوالے سے

آپ کے اسکول میں اساتذہ کی تربیت کیسے کی جاتی ہے؟

ٹیچرز کی تربیت کے لئے کئی طرح کے تربیتی کورسز کروائے جاتے ہیں ۔ ہماری ہیڈ آفس کی ٹیم اور میں خود اور ہمارے سینئر ٹیچرز ضرورت کے مطابق اساتذہ کو رہنمائی فراہم کرتے رہتے ہیں ۔ نئے آنے والے ٹیچرز ، سینئر ٹیچرز کی کلاسز میں جاتے ہیں اور اُن کے طریقہ تدریس سے سیکھتے ہیں ، پھر سینئر ٹیچرز بھی نئے آنے والے ٹیچرز کی کلاسز میں جاتے ہیں ، اُن کے لیکچر کا باریکی سے مشاہدہ کرتے ہیں اور ضرورت کے مطابق رہنمائی بھی کرتے ہیں، رہنمائی کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے ۔

طلبہ کو جدید تعلیمی سہولیات کیسے فراہم کی جا رہی ہیں؟

وقت کی ضرورت کے مطابق تدریسی عمل میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں ، ہم نے بھی پوری کوشش کی ہے کہ جدِید دور کے تقاضے پورے کئےجائیں، ہمارے ادارے میں جدید سہولیات سے مُزیّن کمپیوٹر لیب اور کلاس رومز میں ملٹی میڈیا کی سہولت بھی موجود ہے ۔سکول کی ہر کلاس میں ملٹی میڈیا کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے ۔

آپ کا اسکول طلبہ کی شخصیت سازی پر کس طرح کام کرتا ہے؟

ہمارے ادارے میں طلبہ کی شخصیت سازی پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے، میرا تو ماننا ہے کہ پہلے تربیت پھر تعلیم ۔ ہمارے ادارے کے چیئرمین صاحب کا مشن ہے کہ “بندے بناؤ بندے “، ہم سب اِسی موٹو کو لے کر چل رہے ہیں ۔ میری بھرپور کوشش ہے میں نوجوان نسل کی اصلاح کے لیئےاپنا کردار ادا کروں اور میں اِس کو صدقہ جاریہ سمجھتا ہوں ۔

*:مستقبل کے منصوبے

کیا آپ مستقبل میں اپنے اسکول کی برانچز کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟.14

دی پیس گروپ آف سکولز اینڈ کالجز کے صوبے بھر میں 26 کیمپس موجود ہیں ۔ ضرورت کے تحت اس کو مزید بڑھایا بھی جا سکتا ہے ۔

آپ کے اسکول میں مزید بہتری کے لیے آپ کے کیا منصوبے ہیں؟

اپنے ادارے کی ترقی کے لئے ہر وقت مصروف عمل رہنے والا انسان ہوں ، ہم نے انٹرنیشنل سطح پر اپنے سٹوڈنٹس کو مقابلوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا ، دنیا بھر کییونیورسٹیز سے معائدے کیے ۔ ہمارے طلبہ امریکہ ، برطانیہ اور کینڈا کییونیورسٹیز میں اسکالرشپ کے ذریعے ہمارے توسُّط سے ایڈمیشن حاصل کر سکتے ہیں

ٹیکنالوجی کے اس دور میں آپ اسکول کو مزید ڈیجیٹلائز کرنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟

ہم پیس کالج میں سوفٹ اسکلز پہ بہت کام کر رہے ہیں ۔ متعدد آئی ٹی کورسز کرواتے ہیں ۔ سکول کی سطح پہ بچوں کو پاور پوائنٹ پر پریزنٹیشن بنانا اور پھر سب بچوں کے سامنے اپنی پریزنٹیشن کو پیش کرنے پر بہت کام ہو رہا ہے ۔

 *:والدین اور معاشرتی اثرات

والدین کے تعاون اور ان کے رویے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

مجموعی طور پر والدین کا رویہ اچھا ہے ۔ مگر چند جگہ پر وہ استاد کے مرتبے کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ، اور نا مناسب انداز میں رد عمل دیتے ہیں ، میں ہمیشہ کہتا ہوں کوئی بھی بات یا رائے اصلاح کی غرض سے دیں ، تنقید کے لئے نہیں ۔ اور سب مل جل کر اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کریں ۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نجی تعلیمی ادارے پاکستان میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں؟

نجی تعلیمی اداروں نے اس میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے ، تعلیم کے شعبے میں ساری نئی جدتیں نجی اداروں نے ہی متعارف کروائی ہیں ۔گزشتہ دو دھائیوں میں سب سے زیادہ ڈاکٹرز ، انجینئرز ، ججز ،آرمی آفیسرز نجی اداروں سے ہی تعلیم حاصل کر کے اعلیٰ مقام تک پہنچے ہیں

کسی بھی نئے فرد کو جو نجی اسکول کھولنا چاہتا ہے، آپ کیا مشورہ دیں گے؟

جو کوئی بھی تعلیم کے شعبے میں قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہے وہ ضرور اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالے ، اچھے اداروں کی ضرورت ہے ، ایسے ہی ہم بہتر سے بہترین کی طرف جائیں گے ۔ جتنے زیادہ ادارے کھلیں گے مقابلے کا رجحان فروغ پائے گا اور بچوں کو معیاری تعلیم ملے گی ۔

:پیغام

ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور والدین بچوں کی تعلیم کو اپنی زندگی کی پہلی ترجیح بنا لیں تو ہی ملک ترقی کرے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *