پاکستانی جامعات عالمی درجہ درجہ بندی میں تنزلی کاشکارکیوں؟

تحریروتحقیق۔حافظ سرفراز خان ترین

عالمی درجہ بندی 2025: پاکستانی جامعات کی کمزور کارکردگی اور اصلاح احوال کی فوری ضرورت

دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات کی سالانہ عالمی درجہ بندی (QS World University Rankings 2025) جاری ہو چکی ہے۔ بدقسمتی سے اس فہرست میں پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی نے ٹاپ 350 جامعات میں جگہ نہیں بنائی۔ یہ صورتحال نہ صرف لمحۂ فکریہ ہے بلکہ تعلیمی پالیسی سازوں کے لیے ایک تنبیہ بھی ہے۔ اس درجہ بندی کے مطابق قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سب سے بہتر کارکردگی کے باوجود 354 ویں نمبر پر رہی جبکہ نسٹ (NUST) 371 ویں پوزیشن حاصل کر سکی۔ اگرچہ پاکستان کی 18 جامعات دنیا کی 1500 بہترین جامعات میں شامل ہوئیں، لیکن ان کی اکثریت 1000 کے بعد کی پوزیشنز پر ہے۔ سندھ سے صرف کراچی یونیورسٹی 1001 کے اندر آ سکی، جو ایک تشویش ناک امر ہے۔

درجہ بندی میں شامل چند نمایاں پاکستانی جامعات کی پوزیشن کچھ یوں ہے: قائداعظم یونیورسٹی 354، نسٹ 371، پنجاب یونیورسٹی 542، لمز 555، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد 654، کامسیٹس 664، پیاس 721، یو ای ٹی لاہور 801، پشاور یونیورسٹی 901، آغا خان یونیورسٹی 1001، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی 1201، اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور 1401 پر موجود ہے۔

دوسری طرف دنیا کی ٹاپ 10 جامعات میں ایم آئی ٹی، امپیریل کالج لندن، اسٹینفورڈ، آکسفورڈ، ہارورڈ، کیمبرج، ETH زیورخ، نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور، یو سی ایل لندن، اور کالیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ ان اداروں کی کامیابی کی بنیاد جدید تحقیق، عالمی معیار کی تدریس، صنعتی تعاون اور طلبہ و اساتذہ کی بین الاقوامی رسائی پر ہے۔

برطانیہ کے ایک اور معروف ادارے ’ٹائمز ہائیر ایجوکیشن‘ نے 2021 میں ایک علیحدہ عالمی درجہ بندی جاری کی تھی جس میں پاکستان کی 16 جامعات کو ایشیا کی 550 بہترین جامعات میں شامل کیا گیا تھا۔ اس رینکنگ میں 93 ممالک سے 1500 یونیورسٹیوں کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے 550 صرف براعظم ایشیا کی تھیں۔ 2021 کی اس درجہ بندی میں قائداعظم یونیورسٹی 100ویں، عبدالولی خان یونیورسٹی 124ویں، اور کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد 171ویں نمبر پر رہی۔ پاکستان میں ان کے بعد پشاور یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد بالترتیب چوتھے اور پانچویں نمبر پر تھیں۔ ایشیائی درجہ بندی میں چین، جاپان، ہانگ کانگ، سنگاپور اور جنوبی کوریا کی یونیورسٹیاں سرفہرست رہیں۔

یہ عالمی درجہ بندیاں کس قدر اہم ہیں؟
ملکی اور بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹیوں کی یہ رینکنگز طالب علموں کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔ داخلوں، وظائف، تحقیق، اور کیریئر کے امکانات کے لحاظ سے طلبہ ان فہرستوں کو بہت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ اعلیٰ رینکنگ رکھنے والی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کریں۔ تاہم کچھ ماہرین اس رجحان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی سائنسدان پروفیسر پرویز ہود بھائی نے ایک ویڈیو میں کہا کہ “ایک اچھی یونیورسٹی کی اصل پہچان اس کی معیاری تحقیق اور تدریس ہے، نہ کہ محض درجہ بندی۔” ان کے مطابق اصل معیار وہی ادارے ہیں جو طلبہ کو علم، تنقیدی سوچ، اور تحقیق کی عملی تربیت دیتے ہیں۔

اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستانی جامعات کی عالمی درجہ بندی میں مسلسل پسماندگی کی اہم وجوہات کیا ہیں:

الف۔ تحقیقی معیار میں کمی
پاکستانی جامعات میں تحقیق کو وہ اہمیت حاصل نہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں دی جاتی ہے۔ بین الاقوامی جرائد میں پاکستانی اساتذہ کی تحقیق کم شائع ہوتی ہے اور تحقیقی منصوبوں کی تعداد بھی مایوس کن ہے۔

ب۔ فنڈنگ کی قلت
اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں حکومتی سرمایہ کاری نہایت کم ہے۔ اکثر جامعات بنیادی سہولیات جیسے جدید لائبریری، لیبارٹریز اور تحقیقی آلات سے محروم ہیں۔

ج۔ تدریسی عملے کی عدم تربیت
زیادہ تر اساتذہ تحقیق سے کم وابستہ ہیں اور روایتی انداز میں تدریس کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ ترقی اور تربیت کے مواقع محدود ہیں۔

د۔ بین الاقوامی تعاون کا فقدان
پاکستانی جامعات کا دیگر عالمی اداروں کے ساتھ تحقیقی تعاون، فیکلٹی ایکسچینج یا مشترکہ پروگرامز میں شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔

ہ۔ زبان کی رکاوٹ
عالمی درجہ بندی میں انگریزی زبان میں تدریس و تحقیق کو اہمیت حاصل ہے، لیکن ہمارے ہاں زبان کی مہارت اور مواد کی دستیابی مسائل کا شکار ہے۔

و۔ طلبہ کی تحقیقی عمل میں محدود شمولیت
طلبہ کو تنقیدی سوچ، تحقیق، اور عملی منصوبوں میں فعال کردار نہیں دیا جاتا۔ ان کی تعلیم صرف نمبرز اور امتحانات تک محدود ہے۔

ان وجوہات کے نتیجے میں کئی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا:

ز۔ عالمی ساکھ کا متاثر ہونا
جب جامعات عالمی سطح پر نمایاں نہ ہوں تو ان کی ڈگری کی وقعت کم ہو جاتی ہے، جس سے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار اور اعلیٰ تعلیم میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

ح۔ غیر ملکی سرمایہ کاری اور طلبہ میں کمی
درجہ بندی میں پیچھے ہونے سے غیر ملکی طلبہ اور ادارے پاکستان کی جامعات میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں۔

ط۔ ذہین دماغوں کا بیرون ملک انحصار (Brain Drain)
باصلاحیت اساتذہ اور طلبہ بیرون ملک بہتر مواقع کی تلاش میں ملک چھوڑ دیتے ہیں، جس سے مقامی نظام مزید کمزور ہوتا ہے۔

اگر ہم اس صورت حال کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو فوری اور دیرپا اصلاحات کی ضرورت ہے:

ی۔ تحقیقی کلچر کا فروغ
ہر یونیورسٹی میں تحقیق کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ محققین کو فنڈز، سہولیات، اور انعامات فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر نمایاں کام کر سکیں۔

ک۔ اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت
جدید تدریسی اصولوں اور تحقیق کے حوالے سے اساتذہ کی مسلسل تربیت کا انتظام کیا جائے۔ بیرونی ممالک کے ساتھ ٹریننگ معاہدے کیے جائیں۔

ل۔ عالمی تعاون اور شراکت داری
یونیورسٹیز کو دیگر بین الاقوامی جامعات کے ساتھ ایم او یوز کرنے چاہییں تاکہ مشترکہ ریسرچ اور طلبہ کا تبادلہ ممکن ہو۔

م۔ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری
ڈیجیٹل سہولیات جیسے سمارٹ کلاس رومز، آن لائن لیکچرز، اور تحقیقی ڈیٹا بیسز جامعات میں دستیاب ہوں تاکہ جدید دور کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔

ن۔ خودمختاری اور احتساب
جامعات کو انتظامی خودمختاری دی جائے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ ساتھ ہی ایک مؤثر احتسابی نظام بھی قائم کیا جائے۔

س۔ حکومتی ترجیحات میں تبدیلی
تعلیم کو قومی پالیسی میں اولین ترجیح دی جائے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو مالی اور ادارہ جاتی خودمختاری دی جائے تاکہ وہ مؤثر اصلاحات کر سکے۔

نتیجہ کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عالمی درجہ بندیاں پاکستانی تعلیمی نظام کی کارکردگی کو عالمی تناظر میں پرکھنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہیں۔ اگر ہم واقعی اپنی جامعات کو بین الاقوامی سطح پر نمایاں مقام دلانا چاہتے ہیں تو محض درجہ بندی پر تبصرہ کرنے کے بجائے، تحقیق، جدت، ٹیکنالوجی، اور عالمی ہم آہنگی کی بنیاد پر پائیدار اصلاحات لانا ہو

۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *