پشاور ہائی کورٹ نے کوہاٹ بورڈ کے کنٹرولر امتحانات کے تبادلے کو کالعدم قرار دیدیا

پشاور ہائی کورٹ نے جمعرات کو خیبر پختونخوا حکومت کے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوہاٹ کے کنٹرولر امتحانات کو ان کے اصل محکمے میں واپس بھیجنے اور نئی تقرری کے احکامات کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ جسٹس نعیم انور اور جسٹس کامران حیات پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں کہا کہ صوبائی حکومت کے دونوں نوٹیفیکیشنز کالعدم ہیں، جبکہ ملک مقصود انور کو ان کے عہدے پر بحال کیا جائے گا۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔  

دی نیوزانٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پٹیشنر ملک مقصود انور، جو ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر (گریڈ 18) ہیں، کو 8 جون 2022 کو بائیس کوہاٹ کے کنٹرولر امتحانات کے طور پر تین سال کی معیاد پر تعینات کیا گیا تھا۔ ان کے وکیل خالد رحمان نے عدالت میں بتایا کہ 14 مارچ 2025 کو انہیں یکطرفہ طور پر اصل محکمے میں واپس بھیج دیا گیا اور پرنسپل روح اللہ جان کو نئے کنٹرولر کے طور پر نامزد کر دیا گیا۔ وکیل نے دلیل دی کہ میٹرک کے امتحانات مکمل ہو چکے ہیں، جبکہ ایف اے/ایف ایس سی امتحانات کا آغاز ہونے والا ہے، جس میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ شامل ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ امتحانی پرچے پیٹیشنر کی نگرانی میں تیار کیے گئے تھے اور اس حساس مرحلے پر منتقلی امتحانی نظام کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے۔  

پیٹیشنر کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ڈیپوٹیشن پر تعینات افسر کو مدت پوری ہونے سے پہلے واپس نہیں بھیجا جا سکتا، جیسا کہ عدالت عظمیٰ کے سابقہ فیصلوں میں واضح ہو چکا ہے۔ وکیل نے الزام لگایا کہ پیٹیشنر کو سیاسی بنیادوں پر ہٹایا گیا، جبکہ ایبٹ آباد بورڈ کے کنٹرولر کو امتحانی دورانیہ مکمل ہونے کے باوجود عہدے پر برقرار رکھا گیا۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ منتقلی اور نئی تقرری کے نوٹیفیکیشنز کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔  

خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں کہا کہ یہ اقدام قوانین کے دائرے میں اٹھایا گیا اور صوبائی حکومت کو کسی بھی ڈیپوٹیشن افسر کو واپس بلانے کا اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ امتحانات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا اور نئی تقرری بھی قانونی ہے۔ تاہم، عدالت نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے حکومتی اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا۔  

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ڈیپوٹیشن پر تعینات افسر کو بلا جواز اور معیاد سے پہلے واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔ ساتھ ہی، امتحانی عمل کی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے عہدیداروں کی غیر ضروری منتقلی عوامی مفاد کے خلاف ہے۔ فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ حکومت نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سیاسی مفادات کو ترجیح دی، جو آئین کے خلاف ہے۔  

تعلیمی ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز نے عدالت کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ امتحانی نظام میں شفافیت اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ کلیدی عہدیداروں کو غیر ضروری مداخلت سے محفوظ رکھا جائے۔ بائیس کوہاٹ سے وابستہ اساتذہ اور طلبہ نے بھی فیصلے کو عوامی مفاد کا تحفظ قرار دیا ہے۔ عدالت کا تفصیلی فیصلہ جلد جاری کیا جائے گا، جس میں قانونی نکات کو واضح کیا جائے گا۔

شاور ہائی کورٹ، BISE کوہاٹ، کنٹرولر امتحانات، ڈیپوٹیشن، عدالت کا فیصلہ، امتحانی شفافیت، عدالتی حکم، سیاسی مداخلت، Peshawar High Court, BISE Kohat, Controller Exams, Deputation, Court Decision, Exam Transparency, Political Interference, Legal Judgment

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *